جموں کشمیر میں بھی قومی تعلیمی پالیسی کا اطلاق ہوا ہے جس کے تحت سیلبس سے لے کر امتحانات کے انعقاد تک ہر تعلیمی پالیسی مرکزکے تابع ہوگی اور جموں کشمیر میں جیسا کہ پہلے ہوا کرتاتھا کوئی علحیدہ سیلبس نہیں ہوگا بلکہ وہی ہوگا جو ملک بھر کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاے گا۔قومی تعلیمی پالیسی کا اطلاق لازمی بن گیا ہے کیونکہ جب آئین ہند کے دفعہ 370کے تحت جموں کشمیر کو دی گئی خصوصی پوزیشن باقی نہیں رہی تو ظاہر ہے کہ ملک میں جس طرح کے قوانین رایج ہیں ان کا اطلاق تو اس خطے پر لازمی طور پر ہوگا اور تعلیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔جو تعلیمی پالیسی ملک کی باقی ریاستوں یا مرکز کے زیر انتظام والے علاقوں میں ہے اسی طرح کی تعلیمی پالیسی یہاں بھی رایج کی گئی لیکن کیا جموں کشمیر کے حوالے سے ماہرین تعلیم نے جو سیلبس تشکیل دیا ہے کیا اس میں کشمیر کے تہذیب و تمدن ،یہاں کے رہہن سہن اور رسم و رواج ،زبان و ادب کا خیال رکھا گیا ہے کہ نہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کیونکہ جو بچے سکولوں میں ایڈمیشن لینگے ان کو اپنے خطے کے تہذیب و تمدن رسم و رواج ،زبان و ادب ،رہن سہن کے بارے میں صرف تعلیمی اداروں میں ہی جانکاری دی جاسکتی ہے ۔اگرچہ بچوں کو ہر خطے کے بارے میں جانکاری ملنی چاہئے لیکن اپنے خطے کے بارے میں بچوں کو زیادہ سے زیادہ آگاہی دلانے کے لئے ماہرین تعلیم کو اسی حساب سے سیلبس ترتیب دینا چاہئے ۔دوسرا سب سے اہم مسلہ زبان و ادب کا ہے ۔یہاں کے بچوں کو کشمیری اور اردو کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تعلیم دی جانی چاہئے کیونکہ اگر کشمیری بچوں کو کشمیری یا اردو سے دور رکھا جاے گا تو وہ یہ دونون زبانیں بھول جاینگے پھر وہ نہ گھر کے رہینگے نہ گھاٹ کے ۔ہر ریاست کے بچے کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دلوانا لازمی ہے تبھی وہ اس میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے ۔اس بات کا ماہرین تعلیم کو خاص خیال رکھنا چاہئے ۔اس کے ساتھ ہی سالانہ امتحانات جو اب تک نومبر میں ہوا کرتے تھے اب مارچ میں لئے جائینگے جبکہ ابھی تک حکومت جموں کشمیر نے اول سے لے کر نویں جماعت تک کے سالانہ امتحانات کے انعقاد کے بارے میں ابھی تک کوئی بھی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اسلئے بہتر یہی ہے کہ اب سب جماعتوں یعنی اول سے لے کر نویں جماعت تک کے امتحانات مارچ میں ہی لئے جانے چاہئے کیونکہ نومبر میں امتحانات کے انعقاد سے کشمیری طلبہ و طالبات مسابقتی امتحانات میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں۔بعض کشمیری اپنے بچوں کو پانچویں پاس کے بعد ہی جموں کشمیر سے باہر کے سکولوں میں ان کا ایڈمیشن کرواتے ہیں اگر کشمیری بچوں کے لئے نومبر سیشن ہی جاری رہنے دیا جاے گا تو اس کے لئے باہر کے سکولوں مین ایڈمیشن کا حصول مشکل بن جاے گا۔یہاں وادی میں انگلش میڈیم سکولوں میں سرکاری سکولوں کے مقابلے میں جو سیلبس تجویز کیا جاتا ہے وہ الگ ہوتا ہے اس سے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں میں احساس کمتری پیداہوتا ہے اسلئے سرکاری اور انگلش میڈیم سکولوں میں یکساں سیلبس پڑھایا جانا چاہئے ۔