روزنامہ آفتاب کے بانی مرحوم خواجہ ثناءاللہ بٹ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے ۔ ملکی ، غیر ملکی اور مقامی سطح پر ان کا نام آفتاب کی طرح روشن ہے ۔ خاص کر صحافت کے اُفق پر ان کا نام روشن ہے ۔ مرحوم ثناءاللہ بٹ کی جانب سے تحریر کردہ ”خضر سوچتاہے ولر کے کنارے“ایک ایسی تحریر تھی جس نے ایک مقام حاصل کرلیا تھا اور جموں کشمیر کے لوگوں کے دلوںمیں گھر کرگیا تھا ۔ ”خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے“مرحوم کے انتقال کے ساتھ ہی بند رہا کیوں کہ ان کی تحریر میں جو جادوئی اثر تھا وہ کسی اورکی تحریر میں نہیں ہے ۔ اس کالم میں حکومتی اداروں ، سیاست دانوں ، سیاسی پارٹیوں کو تنقید یا ان کے کام پر ان کی سراہنا ہوا کرتی تھی ۔ مرحوم نے جموں کشمیر میں اُردو صحافت متعارف کرائی غالبا ان کا اخبار وادی میں پہلا اُردو اخبار ہے ۔ خواجہ ثناءاللہ بٹ کو جموں کشمیر کا بابائے صحافت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ مرحوم 14نومبر 1922میں پیدا ہوئے جنہوں نے ابتدائی تعلیم سرینگر میں ہی حاصل کی جبکہ انہوںنے میٹرک پنجاب یونیورسٹی لاہور کے باورڈ سے 1938میں پاس کیا ۔انہوں نے صحافت سے جڑے اُس وقت کے نامور اشخاص کی صحبت میں رہ کر اس شعبے سے اپنا مستقبل جوڑتے ہوئے سرکاری نوکری کو لات ماردی اور 1953میں انہوں نے کشمیر سے ہفتہ روزہ نکالا جو کہ اُس وقت مظفر آباد سے شائع ہوا کرتا تھا ۔ جبکہ انہوں نے 1957میں وادی کشمیر میں واپس آکر ”آفتاب “ کے نام سے ہفتہ روزہ اخبار شائع کرنا شروع کردیا جس نے کافی کم وقت میں نام کمایا اور ارباب اقتدارکی خبر لینی شروع کی !کیوں کہ وادی میں اُس وقت پریم ناتھ بزاز کے ہمدرد نامی اخبار پر کی اشاعت پر سرکار نے پابندی لگائی تھی اور اس کے بعد آفتاب ہی ایک ایسا اخبار تھا جو آزادانہ صحافت کررہا تھا ۔
کچھ مدت بعد ہی ہفتہ روزہ کو رورزنامہ میں تبدیل کردیا گیا اور یہ اخبارسیاحت کے میدان میں ایک روشن نام بن گیا ۔ مرحوم ثناءاللہ بٹ نے جموںکشمیر میں سب سے پہلے ”سٹریٹ رپورٹنگ“یعنی اپنے دفتروں سے باہر نکل کر کسی خبر پر کام کرنے کا تصور پیش کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پہلی مرتبہ وادی میں فوٹو جرنلزم بھی متعارف کرائی اور اپنے اخبار میں انہوں نے مختلف موضوعات کی پر تصاویر شائع کرنی شروع کی جبکہ انہوںنے سب سے پہلے ”آف سیٹ پرنٹنگ “ شروع کی ۔ اُردو صحافت میں ان کی خدمات قابل سراہناہے اور ناقابل فراموش ہے ۔ اُردو زبان کے ساتھ ساتھ انہوں نے صحافت کی گراں قدرخدمات انجام دی ہیں جس کے اعتراف میں اب تک مختلف اداروں کی جانب سے کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے یہاں تک کہ سرکاری سطح پر بھی انکی خدمات کا عتراف کیا جاچکا ہے ۔ مرحوم ثناءاللہ بٹ ایک بیباک صحافی تھے جنہوں نے نہ کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مداح خوانی کی اور ناہی کسی کی طرف ان کا جھکاﺅتھا۔ مرحوم ثناءاللہ بٹ آزاد صحافت کا روشن ستارہ ہے جو رہتی دنیا تک چمکتا رہے گا۔مرحوم نے کبھی بھی کی بھی سرکاری ادارے سے نہ کوئی ”ڈکٹیشن “ لیا اور ناہی قبول کیا ۔ ان کی تحریرات منفرد تھیں ۔مرحوم نے زیادہ تر عوامی مسائل کو اُجاگر کرنے کو ترجیح دی ۔انہوں نے تین دہائیوں تک نامساعد حالات کے دور میں بھی جب کوئی کسی کے خلاف لکھنے یا بات کرنے کی جرات نہیں کرپارہا تھا ، سچائی اور صاف و شفاف طریقے سے اپنا کام جاری رکھا اور بغیر کسی خوف و خطر کے ہر مسائل پر پر لکھتے رہے ۔ ان کی جانب سے لکھا جانے والا ”خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے “عالمی شہرت حاصل کرچکا تھا آج بھی جہاں پر صحافت کے بارے میں بات کی جاتی ہے تو مرحوم ثناءاللہ بٹ کے تحریر کردہ کالم ”خضر “ کا تذکرہ چلتا ہے ۔ آج تک نہ ان کی طرح کوئی صحافت کرسکتا
ہے اور ناہی کوئی اور بیباک اور نڈر صحافی پیدا ہوسکتا ہے ۔ مرحوم کی برسی پر انہیں خراج عقیدت اداکرنے کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ان کی طرح ہی بیباک اور آزادانہ صحافت کو فروغ ملے ۔
تحریر:بلال مولوی
9419264455
bilalmolvi24@gmail.com