وادی کشمیر جنت بے نظیر لیکن پانی سے محروم ۔اس سے قبل ان ہی کالموں میں متعلقہ محکمے کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی کہ پوری وادی اور خاص طور پر شہر سرینگر میں نل خشک پڑے ہیں اور چاروں طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود پانی کی فراہمی میں معقولیت نہیں لائی جاسکی ہے ۔اگرچہ ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ گذشتہ تین مہینوں سے بارشیں نہیں ہوئیں اور اوپر سے غضب کی گرمیاں ،ان حالات میں ندی نالوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ دریاﺅں میں پانی کی سطح برابر گرتی جارہی ہے لیکن ایسا لگتاہے کہ نظام تقسیم ٹھیک نہیں ہے ۔یہ دیکھنا محکمے کا کام ہے کہ کیا ہر علاقے کو منصفانہ طریقے پر پانی فراہم کیا جارہا ہے اور اگر کسی علاقے تک پانی پہنچانا ناممکن بن رہا ہے تو اس علاقے کے لئے ٹینکر سروس شروع کی جاسکتی ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ تو پانی کی تقسیم منصفانہ طریقے پر ہورہی ہے اور نہ ہی کسی جگہ ٹینکر سروس شروع کی گئی ہے ۔نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ چاروں اور ہاہا کار مچی ہوئی ہے ۔لوگ پریشان ہیں کہ کریں تو کیا کریں ؟وادی کشمیر قدرتی چشموں اور آبشاروں ندی نالوں سے مالا مال ہے لیکن دوسری جانب یہاں کے لوگ بوند بوند کو ترس رہے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی سے ندی نالوں کا پانی ضایع ہورہا ہے جو پانی لوگوں کے لئے پینے کے طور پرفراہم کیاجاسکتاہے اس کی بڑی تعداد ضایع ہورہی ہے ۔بہت سے علاقوں سے یہ خبریں موصول ہورہی ہیں کہ لوگ ٹیوب ویلوں کا پانی پینے کے لئے مجبور ہیں ۔اس سے متعدد موذی بیماریاں پھیلنے لگی ہیں اور خاص طور پر دست قے اور اسہال کی بیماری تو عام سی ہوگئی ہے ۔عام لوگوں کو پانی کی قلت کے حوالے سے جو پریشانی لاحق ہوئی ہے اس پر قابو پانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے ۔متعلقہ محکمے کی طرف سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو منصفانہ طریقے پر پانی کی تقسیم کاری کے اپنے عزم پر قایم ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں کئی کئی دنوں کے بعد پانی فراہم کیا جارہا ہے ۔اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ موسم کی وجہ سے پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے لیکن محکمے کو اسی حساب سے پانی فراہم کرنا چاہئے تھا اور جن علاقوں میں یعنی جو بالائی علاقے ہیں اور جہان پانی کی زیادہ قلت پا ئی جاتی ہے ان کے لئے ٹینکر سروس شروع کی جاسکتی تھی لیکن محکمہ اس طرح کا عوام دوست اقدام اٹھانے سے قاصر نظر آتاہے ۔اس سے حالات اور زیادہ پیچیدہ بن گئے ہیں ۔حال ہی میں پٹن میں جو واقعہ پیش آیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ لوگ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق پر سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور ہونے لگے ہیں اور ظاہر ہے کہ پٹن میں اس سے لااینڈ آرڈر کا مسلہ پیدا ہوگیا ۔اگر ایس ایس پی موقعے پر پہنچ کر سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظاہرین کو نہ سمجھاتے تو حالات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی چونکہ ایس ایس پی نے ان کو یقین دلایا کہ محکمہ واٹر ورکس حکام پر یہ ذمہ داری عاید کی جاے گی کہ وہ لوگوں کے اس اہم مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے پانی کی نقسیم کاری کو یقینی بنائیں ۔یہ صرف ایک علاقے کی بات نہیں بلکہ محکمے کو ہر علاقے کے لئے اسی طرح کی پالیسی اپنانی پڑ سکتی ہے ۔اس دوران کھیت کھلیان بھی سوکھنے لگے ہیں ۔محکمہ اریگیشن کی طرف سے زرعی زمین کے لئے بھر پور مقدار میں بھی پانی فراہم نہیں کیا جارہا ہے اور اس سے پہلے کہ خشک سالی شدت اختیار کرے حکومت کو چاہئے کہ زرعی زمین کے لئے آبپاشی سہولیات فراہم کرے ۔