16اگست منگل کو چندن واڑی سے پہلگام آنے والی ایک بس کو حادثہ پیش آنے سے اس میں سوار انڈو تبتین بارڈرفورس سے وا بستہ سات جوان از جان اور تیس سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے کئی ایک کی حالت اب بھی نازک بتائی جاتی ہے جو بادامی باغ کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج ہیں ان میں سے جو سب سے زیادہ نازک حالت میں ہیں انہیں دوسرے بڑے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے اس حادثے کی اطلاع ملتے ہی لیفٹننٹ گورنر بذات خود آرمی ہسپتال گئے اور زخمیوں کی عیادت کی اس کے بعد انہوںنے وہاں ڈاکٹروں سے تلقین کی کہ وہ زخمیوں کا اچھی طرح سے علاج معالجہ کریں ۔بعد میں لیفٹننٹ گورنر پولیس کنٹرول روم گئے جہاں انہوں نے ان ساتوں اہلکاروں کی میتوں پرپھول چڑھائے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا ۔بعد میںمہلوکین کی میتوں کو ان کی آبائی ریاستوں کو روانہ کیاگیاجہاں ان کی آخری رسومات اد ا کردی جاینگی ۔بہر حال انسانی جانوںکے زیاں پر ہر دل روتا ہے اور ہر آنکھ نم ہوتی ہے جس وقت چندن واڑی کے قریب فورسز اہلکاروں کو لے کر جانے والی بس ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر نیچے کھائی میں لڑھک گئی دور دور سے لوگ جن مین زیادہ تر نوجوان بھی شامل تھے دوڑتے ہوے آے اور بچاﺅ کاروائیوں میں لگ گئے بہت سے نوجوانوں نے زخمیوں کی جانیں بچانے کے لئے خون بھی دیا اور انسان نوازی کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔نوجوانوں کو زخمی اہلکاروں کو کندھوں پر بٹھا کرمحفوظ مقامات تک لے جاتے ہوے دیکھا گیا ۔بہر حال ہونی کو کون ٹال سکتاہے اس حادثے میں سات اہلکار اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔تیس سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں جن میں سے بعض کی حالت نازک بتائی جاتی ہے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حادثات کی اصل وجہ کیا ہوتی ہے اور کس طرح اس طرح کے حادثات کو ٹالا جاسکتا ہے ۔ایک تو چندن واڑی سے پہلگام تک جو پہاڑی سڑک ہے اس کو کشادہ کیاجانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی اس پر بڑی گاڑیوں کو چلنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے بلکہ اس پر صرف چھوٹی گاڑیوں کو ہی چلنے کی اجازت ہونی چاہئے کیونکہ اس سڑک پر بہت سے ٹیڑھے میڑھے موڑ ہیں اور بلائینڈ کارنر بھی ہیں جہاں حادثات ہونے کے بہت زیادہ امکانات رہتے ہیں ۔اسلئے اس سڑک پر جتنی چھوٹی گاڑی ہو اتنا ہی حادثات سے بچا جاسکتا ہے ۔یہ علاقہ کشمیر کا مصروف ترین سیاحتی مقام ہے جہان مقامی سیاحوں کے علاوہ دیش بدیش سے سیاح آتے ہیں اس کے ساتھ پلگرم ٹوارزم کے حوالے سے یہ جگہ کافی اہمیت کی حامل ہے ۔کئی لاکھ لوگ ہر سال امرناتھ کی یاترا کرنے کے لئے اسی راستے کا انتخاب کرتے ہیں اسلئے چندن واڑی سے پہلگام تک کی سڑک کو ترجیحی بنیادوں پر کشادہ کیا جانا چاہئے اس کے ساتھ صرف ان لوگوں کو ہی گاڑیاں لے کر چندن واڑی تک جانے کی اجازت دی جانی چاہئے جن کے پاس ہل لائینس ہو۔کیونکہ عام گاڑی چلانے والے کے لئے اس پہاڑی روٹ پر گاڑی لے کر چلنے کی اجازت دینا حادثات کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اسلئے اس طرح کے روٹوں پر حادثات سے بچنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ماہر ڈرائیوروں کو ہی اس روٹ پر چلنے کی اجازت دی جانی چاہئے ۔