محنت کرے انسان تو کیا نہیں ہوسکتا ،یہ ایک پرانی کہاوت ہے اور ہر دور میں اس کی اہمیت برقرار ہے یعنی جو کوئی محنت کرے گا پھل بھی پاے گا۔حالات نے کچھ ایسا روپ دھارا کہ سرکاری نوکریوں کا جیسے کال پڑ گیا ۔کہیں بھی نظر نہیں آرہی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار کے اتنے وسایل پیدا ہوگئے ہیں کہ اب زیادہ تر پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں روزگار کے حوالے سے پرائیویٹ سیکٹر میں ہی قسمت آزمائی کررہے ہیں ۔جن نوجوانوں نے پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار شروع کیا ہے ان میں سے بیشتر اس وقت اچھی طرح روزگار کمارہے ہیں اور صرف وہی نہیں بلکہ وہ دوسرے کئی بیروزگار وں کو روزگار دلانے والے بھی بن گئے ہیں ۔اسی طرح بعض تعلیم یافتہ لڑکیوں نے ایسے منافع بخش یونٹ کھولے ہیں کہ وہ نہ صرف خود اچھا خاصا پیسہ کماتی ہیں بلکہ انہوں نے کئی دوسری لڑکیوں کو بھی اپنے یونٹوں میں کام پر لگادیا ہے اور وہ بھی روزگار کمارہی ہیں ۔اس کی زندہ مثال شمالی کشمیر کی ان تین بہنوں سے دی جاسکتی ہے جنہوں نے خوشی سے باپ کا پیشہ اپنا یا ہے اور اس میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کی ہے یعنی ان کا باپ تانبے کے برتن بنارہا تھا لیکن اس کی طبعیت بگڑ جانے سے وہ اس قابل نہیں رہا کہ وہ یہ کام کرسکے چنانچہ اس کی بیٹیوں نے خوشی خوشی باپ کا پیشہ اپنایا اور از خود برتن بنانے لگیں ۔کام آہستہ آہستہ چلنے لگا اور آج ان کا کارخانہ وسیع ہوگیا ہے اور انہون نے اب کئی دوسری لڑکیوں کو بھی اس کام پر لگادیا ہے اور وہ اچھی خاصی کمائی کررہی ہیں ۔بعض لڑکیوں نے تو باضابط بیکری بنانے کے کارخانے قایم کئے ہیں انہوں نے آئی ٹی آئیز میں کئی ہنروں کو سیکھا اور بعد میں ان ہنروں میں کسی ایک ہنر کو اپنا یا جس کے بارے میں ان کو اندازہ تھا کہ اسے اپنانے کے بعد وہ اچھی خاصی آمدنی کی مالک بن سکتی ہیں چنانچہ آج وہ کئی کئی یونٹوں کی مالک بن گئی ہیں ۔باعزت روزگار کمانے میں شرم نہیں کرنی چاہئے یعنی جب کوئی باعزت طریقے پر روزگار کمانے لگے تو اسے اس روزگار کے حوالے سے منفی خیالات دل میں نہیں لانے چاہئے ۔گذشتہ دنوں محکمہ فشریز کے ڈائیریکٹر کا انٹرویو اخبارات میں شایع ہوا جس میں انہوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ سال 1984جب محکمہ فشریز کو محکمہ جنگلات سے الگ کرکے اسے ایک خود مختار محکمے کا درجہ دیا گیا کے پاس صرف تین ہیچریاں تھیں لیکن اب ان ہیچریوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی ہیں اور پرائیویٹ طور پر بھی بیروزگار نوجوان روزگار کمانے کے لئے مچھلی پالن کی طرف توجہ دینے لگے ہیں ۔گویا نوجوانوں کے اذہان اب کافی مثبت سوچ کے حامل بن گئے ہیں ۔ایک وقت تھا کہ یہ کاروبار ایک مخصوص طبقے کے پاس تھا اور آج بھی ہے لیکن اب آہستہ آہستہ پڑھے لکھے نوجوان آگے بڑھ کر مچھلی پالن کا بزنس اپنا رہے ہیں اس کام میں محکمہ اس کی نہ صرف بھر پور رہنمائی کررہا ہے بلکہ ان کو ہر طرح کی اعانت بھی کی جارہی ہے تاکہ وہ اس صنعت کو اچھی طرح سے اپنا کر روزگار کماسکیں ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جیسا کہ محکمے کے ڈائیریکٹر نے بتایا کہ ٹراوٹ مچھلیوں کی پیدا وار اس قدر بڑھ گئی ہے کہ محکمہ دوبئی کے کئی کاروباریوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور اب کشمیری ٹراوٹ مچھلیوں کو دوبئی برآمد کیا جارہا ہے اسلئے بیروزگار نوجوان مچھلی پالن کو بھی اپنا کر باعزت روزگار کما سکتے ہیں ۔