اس وقت ارُدو زبان و ادب کو درپیش مسایل و مشکلات سے اس میٹھی اور پیاری زبان کو نکالنے کے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے ۔اردو اور ہندی دو بہنیں ہیں اور دونوں زبانیں اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی عکاس ہیں لیکن اردو کے بارے میں وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اردو کا اثر اب ہر گذرتے دن کے ساتھ کم ہوتا جارہاہے اس کی غالباً ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ اس زبان کو ایک خاص مذہب اور فرقے سے جوڑا گیا اور جب زبان پر اس قسم کی تہمت لگائی جاتی ہے تو اس کی زندگی کے دن کم ہوتے جارہے ہیں ادھر سرکار کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے بھی اس زبان کو بچانے اسے پروان چڑھانے یا اسے ترقی دینے کے لئے کوئی قابل ذکر اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے ۔وادی میں بھی اردو اب آہستہ آہستہ اخبارات تک ہی سمٹتی جارہی ہے اور اخبارات کے ذریعے ہی یہ زبان گھر گھر پہنچتی ہے لیکن لوگوں کی طرف سے اسے اب وہ اہمیت حاصل نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی ۔بے شک ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی اردو میں بول چال سکھاتے ہیں لیکن اس سے اردو کی آبیا ری نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ جب تک اردو یا کوئی اور زبان لکھی یا پڑھی نہیں جاے گی تب تک اس کی ترقی ممکن نہیں ۔اب یہاں حالات اس حدتک بگڑ گئے ہیں کہ اب اردو ایک باقاعدہ زبان ہوکر بولی بنتی جارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اردو میں ضرور باتیں کرینگی لیکن لکھنا پڑھنا تو دُور کی بات ہوگی ۔ان حالات کو مدنظر رکھ کر اور اردو کو فروغ دینے یہاں انجمن اردو صحافت ،ارود کونسل اور اردو اکیڈیمی جیسی تنظیمیں میدان میں اُتر گئی ہیں اور وہ اس سلسلے میں کوشا ں ہیں اب ان کی کوششیں کہاں تک رنگ لائینگی یہ آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے لیکن ان تنطیموں کے چلانے والوں پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو جاری رکھیں اور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ لوگ نہ صرف اپنے بچوں کو اردو میں بات چیت کرنے پر زور دیں بلکہ بچوں کو اردو پڑھنے اور لکھنے کی ترغیب بھی دی جاے تاکہ آگے چل کر ان میں اردو کے ساتھ لگاﺅ پیدا ہوجاے گا ۔جو لوگ اس ز بان کو ایک خاص مذہب اور فرقے کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اردو کو پروان چڑھانے اور اسے ہر دلعزیز بنانے کے لئے غیر مسلم شاعروں ،ادیبوں اور قلمکاروں نے کافی محنت کی ہے ان میں کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی سحر،رام لعل ،منشی پریم چند ،چکبست ،کشمیری لال ذاکر ،اوپندر ناتھ اشک ،کنور سین ،رگھو پتی سہائے فراق گو رکھپوری ،نریش کمار شاد ،آزاد گلاٹی وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔متذکرہ بالا شعرا اور ادیبوں نے اردوکی بہت زیادہ خدمت کی ہے ۔لیکن نہ جانے کیوں آج اردو کو پیچھے کی طرف دھکیلاجارہا ہے ۔ان شعرا اور ادیبوں کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا ہے انہوں نے بے پناہ خوبصورت شاعری کی ۔اچھے ناول اور افسانے لکھے ۔ اردو ڈراموں،کتابو ں اور شاعروں کے دیوانوں پر خوب تنقید کی گئی کافی نام اور شہرت کمائی ۔یہ ان کی ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے جس نے ان کو سماج اور سوسائیٹی میں اعلیٰ مقام دلوایا ۔ان کی وجہ سے اردہ زندہ ہے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اردو کو ہم نے نظر انداز کرنا شروع کردیا ہے ۔جس کی بنا پر یہ زبان آہستہ آہستہ صفحہ ہستی سے مٹتی جارہی ہے اسلئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو کو اس کا اصل مقام دلانے کے لئے سب آگے بڑھیں ۔تاکہ سب سے پیاری ،میٹھی اور دلفریب زبان صفحہ ہستی سے مٹ نہ جاے ۔