موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے وادی بھر میں روز مرہ زندگی درہم برہم ہوکر رہ گئی اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ موسلادھار بارشوں کی بنا پر ایک خاتون کی جان بھی چلی گئی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق کوکر ناگ کے علاقے میں بھاری مٹی کا تودہ ایک کوٹھے پر گرگیا جس سے کوٹھا دب گیا اور اندر موجود ایک خاتون لقمہ اجل بن گئی ۔تقریباً دو دہائی قبل جب والٹینگو قاضی گنڈ میں برفانی تودے گرنے سے درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور بہت سے مکان زمین بوس ہوگئے اس وقت حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر کسی کو مکان دکان ،شیڈ ،گاﺅخانہ ،کچن وغیرہ بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کیونکہ معمولی بارشوں اور برفباری کے نتیجے میں اکثر اوقات مٹی اور برفانی تودے گرتے ہیں اسلئے لوگوں کے جان و مال کو بچانے کے لئے پہاڑیوں کی ڈھلوانوں پر تعمیرات کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد پھر سے لوگوں نے ڈھلوانوں پر تعمیرات کا سلسلہ شروع کردیا ۔یعنی کئی سالوں بعد اس وقت کی سرکار کے فیصلے دھرے کے دھرے رہ گئے اور لوگ پھر سے اسی طرح اپنے آشیانے تعمیر کرنے لگے جس طرح کیا کرتے تھے ۔چنانچہ اس وقت سے اب تک ہم دیکھتے آئے ہیں کہ اکثر وبیشتر تودے اور چٹانیں گرنے کے نتیجے میں سب سے پہلے وہی مکان ،شیڈ ،کچن اور گاﺅخانے وغیرہ ان کی زد میں آتے ہیں جن کوڈھلوانوں پر تعمیر کیا گیا ہوتاہے ۔گزشتہ برس ضلع گاندربل میں گنڈ ،ہاری گنون اور گرد و نواح میں موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں بھاری مٹی کے تودے گرنے اور پہاڑی کھسکنے سے بہت سے مکان زمین بوس ہوگئے لیکن اس دوران مکین کسی طرح اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے لیکن بہت زیادہ مالی نقصان ہوا ہے اور اب گزشتہ دنوں کوکر ناگ میں اسی طرح ایک خاتون لقمہ اجل بن گئی ۔اسلئے حکومت کو اس معاملے پر غور کرنا چاہئے اور جن لوگوں نے ان مقامات جو اس حوالے سے حساس مقامات تصور کئے جاتے ہیں میں مزید تعمیرات پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی باز آباد کاری کا بندوبست کرنا چاہئے جنہوں نے ان مقامات پر تعمیرات کھڑی کردی ہیں ۔اسی طرح سرینگر جموں شاہراہ پر اب معمولی بارشوں کے دوران اور اس کے بعد بھاری مٹی کے تودے گرنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے جس سے شاہراہ کئی کئی دنوں تک بند رہتی ہے ۔ادھر جمعہ کو شاہراہ پر دوبار ٹریفک کی آوا جاہی شروع ہوگئی لیکن بار بار مٹی کے تودے گرنے سے شاہراہ کو بھی بار بار بند کرنا پڑا ۔ادھر ناردرن ریلویز کی طرف سے بتایا گیا کہ اس سال جون میں سرینگر اور جموں کے درمیان ریل سروس بحال کی جاے گی ۔اب تک متعدد مرتبہ اس بارے میں ڈیڈ لائینیں مقرر کی گئی ہیں ۔لیکن اب تک ریل سروس شروع نہیں کی جاسکی ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ریل سروس شروع ہوجاتی تو اس سے قدرتی طور پر سرینگر جموں شاہراہ پر دباﺅ کم ہوجاتا جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا کہ اس پر مٹی کے تودے گرنے کا عمل آہستہ آہستہ ختم ہوکر رہ جاتا لیکن شاہراہ پر اس قدر دباﺅ ہے کہ ایک منٹ کے لئے بھی گاڑیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند نہیں ہوتا ان حالات میں بار بار مٹی کے تودے گرتے رہتے ہیں اور اس سے جہان شاہراہ بند ہوجاتی ہے وہیں دوسری جانب جانی اور مالی نقصان کے بھی خطرات ہوتے ہیں۔اسلئے شمالی ریلویز کو اب کی بار اپنے دعوﺅں کو سچ ثابت کرکے دکھانا ہے ۔