(معمولی باتوں پر قتل و غارت کے واقعات)
وادی کشمیر میں اب ایسی وارداتیں رونما ہونے لگی ہیں کہ سب حیران رہ جاتے ہیں ۔کل ہی صفاکدل کے علاقے میں دن دھاڑے کسی گھریلو جھگڑے کی بنا پر ایک شخص کو قتل کیا گیا ۔بتایا جاتا ہے کہ وہ دو افراد یعنی چچا بھتیجے کے درمیان لڑائی کے دوران بیچ بچاﺅ کرنے لگا لیکن اسی کو چھُرا گھونپ کر ابدی نیند سلادیا گیا ۔اسی دن شام کو شہر کے ایک بالائی علاقے میں دو نوجوانوں پر بھی چھرے سے حملہ کیا گیا دونوں زخمی حالت میں ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔لیکن اس سے زیادہ افسوسناک واقعہ جموں میں رونما ہوا ۔وہاں بھلسر کے علاقے میں ایک گاڑی میں سوار افراد نے ایک سکوٹر سوار کو ٹکر ماردی ۔سکوٹر سوار ان کو دیکھ کر کھیتوں کی طرف بھاگنے لگا لیکن پولیس ذرایع کے مطابق گاڑی میں سوار افراد گاڑی سے باہر نکلے اس شخص کا پیچھا کرکے اور اسے پکڑ کر اسے پہلے لہولہان کرنے کے بعد کسی تیز دھار والے ہتھیار سے اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دئے اور یہ افراد اس شخص کے دونوں کٹے ہوئے ہاتھ اپنے ساتھ لے گئے درد سے کراہتے ہوے اس شخص کی چیخ و پکار سن کر وہاں لوگ جمع ہوگئے جنہوں نے اسے ہسپتال پہنچادیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔پولیس ذرایع کے مطابق قتل کی یہ واردات بھی خاندانی دشمنی کا نتیجہ تھی ۔ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں ؟کشمیری سماج میں کیا اب انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ؟ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوتا تھا زیادہ سے زیادہ معمولی جھگڑ ا وغیرہ ہوتا تھا جس کو بعد میں مقامی معززین کی مداخلت سے حل کیا جاتا تھا لیکن افسو س اس بات کا ہے کہ اب یہاں تقریباً ہر روز اس طرح کی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔مسلہ چاہئے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ہر مسلے کا حل بات چیت میں مضمر ہے ۔لیکن یہاں کا بھاوا آدم ہی اب نرالا ہے اب دوسرے فریق کو قتل کئے بغیر کسی کو چین و سکون ہی نہیں ملتاہے ۔کل ہی شہر کے ایک بالائی علاقے میں دو دوستوں پر چھرے سے حملہ کیا گیا ۔کتنی افسوسنا ک بات ہے کہ جو مسایل باہمی صلاح مشورے اور بات چیت سے حل کئے جاسکتے ہیں ان کو حل کرنے کیلئے اب چھریاں استعمال کی جانے لگی ہیں ۔اس پر وادی کے علماءدانشور وں اور سول سوسائیٹی سے وابستہ افراد کو سر جوڑ کر سوچ وچار کرنا چاہئے کہ کس طرح لوگوں کو بتایا جاے گا کہ ہر طرح کی صورتحال میں قتل و غارت مسلے کا حل نہیں ۔ایمہ مساجد اس سلسلے کو روکنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔آج کل رحمت کا مہینہ جاری ہے ۔زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ مساجد کا رخ کرتے ہیں اسلئے اگر ایمہ مساجد اپنے خطبوں میں اس مسلے کو بھی شامل کرینگے تو اس کے دور رس نتایج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ہمارا سماج اب اس حد تک گرچکا ہے کہ نوبت قتل و غارت اور چھرا زنی تک پہنچ جاتی ہے جو ناقابل یقین ہے ۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس میں منشیات کا بھی کافی عمل دخل ہے ۔اس کے علاوہ نوجوانوں میں بے راہ روی کا بڑھتا ہوا رحجان بھی اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے کا موجب بنتا جارہا ہے ۔اسلئے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بالغ بچوں پر نظر گذر رکھیں جبکہ علما ،ایمہ ،خطیب اور اساتذہ اس طرح کے رحجان کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔