”کشمیری ثقافت ابھی بھی زندہ ہے تاہم اس کو مقبول بنانے کی ضرورت ہے “ یہ بات محکمہ ثقافت کے پرنسپل سیکریٹری سریش گپتا نے کل یہاں میڈیا کو بتائی ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ اگلے برس سے اپنی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک ایڈوانس کلینڈر بنائے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ”کشمیری کلچر ختم نہیں ہوا ہے لیکن مجھے لگتاہے کہ اس کو مزید مقبول بنانے کی ضرورت ہے ۔“ہر ایک قوم کی اپنی الگ الگ پہچان،تہذیب و تمدن وغیرہ ہوتا ہے جس سے اس خطے اور وہاں رہنے والے لوگوں کی پہچان ہوتی ہے ۔اس وقت بہت سی قومیں ایسی ہیں جو انتہائی ایڈوانسڈ سٹیج پر ہیں لیکن اپنی ثقافت ،کلچر اور زبان و ادب سے جڑی ہوئی ہیں اور وہ ان کو کسی بھی قیمت پر چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ۔کسی خطے کی ثقافت ،تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کو پروان چڑھانے اور اسے محفوظ رکھنے کے لئے حکومتوں کا کلیدی رول ہوتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ جب ہم خود ہی اپنی ثقافت ،تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہوں تو حکومت کیا کرسکتی ہے کیونکہ کسی قوم کا کلچر اسی وقت تک محفوظ رہ سکتاہے اور آنے والی نسلوں کے لئے باعث تقلید بن سکتاہے جب لوگ اس کو اپنائیں گے اور اسے روز مرہ زندگی کا ایک حصہ بنائینگے کیونکہ قوموں کی پہچان تو اسی سے ہوتی ہے ۔لیکن افسوس کشمیری عوام خود ہی اپنے کلچر ،تہذیب و تمدن اور زبان و ادب کا گلہ گھونٹنے پر تلے ہوئے ہیں ۔آج صورتحال یہ ہے کہ کشمیری زبان و ادب کا جنازہ نکالا گیا ہے ۔کشمیری رہن سہن کو جیسے لوگ بھول گئے ہیں اور رہی بات ثقافت کی تو آنے والی نسلوں کو اس بات کا پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کشمیری قوم کون ہے ان کا رہن سہن کیسا تھا ان کی زبان کیسی تھی ۔اس وقت اکثر دیکھا جارہا ہے کہ نئی نسل کے سامنے کشمیری زبان کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے کیونکہ نوجوان نسل سے لے چھوٹے چھوٹے بچے بھی کشمیری زبان میں بات کرنے سے احتراز کرتے ہیں اور صرف ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو کشمیری نہیں۔اسی طرح کشمیری پوشاک پہن کر باہر نکلنے میں بھی اب لوگ کترانے لگے ہیں کیونکہ بہت سے لوگوں کو کشمیری لباس پہن کر باہر نکلنے میں احساس کمتری ہوتا ہے ۔جب ہم دوسری قوموں کی طرف دیکھتے ہیں انہوں نے اپنی زبان و ادب ،رہن سہن ،ثقافت وغیرہ کو زور سے تھامے رکھا ہے ۔لداخی فخر سے ایسا لباس پہن کر باہر نکلتے ہیں جس سے دور سے ان کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ لداخی ہونگے ۔جنوبی بھارت کی جتنی بھی ریاستیں ہیں وہاں کے لوگ مخصوص قسم کی دھوتیاں پہن کر باہر نکلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں اور اپنی زبان استعمال کرنے میں ان کو کسی قسم کی شرم محسوس نہیں ہوتی ہے ۔لیکن اس کے مقابلے میں ہم اپنے بچوں کو کشمیری زبان نہیں بلکہ دوسری زبانیں سکھا تے ہیں ۔کشمیری خواتین اپنا روایتی ڈریس بھول گئی ہیں ۔جو کپڑے پہن کر وہ باہر نکلتی ہیں وہ ہر گز ہر گز کشمیری لباس کا متبادل نہیں ہوسکتاہے ۔رہن سہن اور کھانے پینے کے طریقے بدل گئے ہیں ۔اسلئے کشمیر کے ذی عزت شہریوں ،کشمیری زبان ادب سے وابستہ شخصیتوں کو آگے بڑھ کر اپنے تہذیب و تمدن کو بچانے اور اپنی زبان و ادب کی صحیح آبیاری کے لئے ہر ممکن طریقے کواختیار کرنا چاہئے ۔محکمے کو بھی اس جانب بھر پور توجہ دینی چاہئے تاکہ کشمیر کلچراورکشمیریت کو بچایا جاسکے ۔سمینار ،نکڑ ناٹک،مشاعرے ،ادبی سرگرمیوں سے لوگوں کو زبان وادب کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کیا جاسکتاہے ۔