کشمیر میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جو انکشاف کیا گیا ہے وہ واقعی چونکا دینے والا ہے اور اس پر ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے فکر و تشویش کا اظہار کیا ہے ۔مرکزی وزارت سماجی انصاف یعنی منسٹری آف سوشل جسٹس کی طرف سے جو بااختیار کمیٹی قایم کی گئی تھی اس نے متذکرہ بالا عنوان کے حوالے سے پارلیمنٹ میں جو رپورٹ پیش کی ہے اس میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا کہ کشمیر میں 13.50لاکھ افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں اور ان میں سے بیشتر کی عمر 18سے 75سال کے درمیان ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس نہج پر قابو پانے کے لئے یعنی اس کی سمگلنگ ،پیداوار اور تقسیم کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام متعلقہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی لازمی ہے ۔پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی یہ رپورٹ لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 27ارکان پر مشتمل کمیٹی نے 10-17سال کی عمر کے بچوں اور 18-75سال کے بالغوں میں منشیات کے استعمال کی موجودہ تخمینی تعداد کا ذکر کیا ہے ۔کمیٹی نے بتایا کہ جموں کشمیر میں اندازے کے مطابق 1,68,700بچے منشیات کا استعمال کرتے ہیں یعنی اس کے عادی بن چکے ہیں ۔وہ کینا بیس ،اوپیئڈز ،سیڈیٹوکوکین ،ایمفیاٹامین قسم کے محرکات سانس لینے والی ادویات وغیرہ لے رہے ہیں ۔اس کمیٹی نے جن منشیات نما ادویات کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ کشمیر میں منشیات کے عادی افراد چرس ،مقامی بھنگ ،اور افیون کا استعمال کرتے ہیں یہ لوگ کہاں سے یہ سب لاتے ہیں اس کے بارے میں سب حیران ہین ۔روز پولیس اور دوسری متعلقہ ایجنسیوں کیطرف سے بھنگ کی فصل تباہ کی جارہی ہے منشیات سمگل کرنے والوں کو پکڑا جارہا ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے ۔یہ اطلاع بھی باعث تشویش بنتی جارہی ہے کہ لڑکیوںکا بھی رحجان اب منشیات کی طرف بڑھتا جارہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ان لڑکیوں کی تعداد کئی ہزار بتائی گئی جو منشیات استعمال کرنے کی عادی بن چکی ہیں۔اس پر قابو کیسے پایا جاے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم یعنی عام کشمیری کو دینا ہوگا ۔پولیس بھی اپنی جگہ سرگرم اور دوسرے غیر سرکاری ادارے بھی اپنی طرف سے کوششوں میں مصروف کہ کس طرح منشیات کے استعمال پر قابو پایا جاے لیکن پھر بھی یہ وبا روز بروز پھیلتی جارہی ہے ۔اس پر قابو پانے کے لئے ہم کو صرف پولیس کی طرف ہی دیکھنا نہیں ہوگا اور سرکاری ایجنسیوں کا ہی انتظار نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کو ہمارے تعاون کی ضرورت ہے ۔جتنا بھی پولیس اور سرکاری ایجنسیوں کو منشیات سمگلروں کو پکڑنے کے لئے تعاون دینے کی ضرورت ہے اتنا ہم سے نہیں ہورہا ہے اسلئے کشمیری دانشوروں ،علمائے کرام ،ایمہ حضرات ،اساتذہ ،پروفیسروں ،ڈاکٹروں ،تاجروں اور دوسرے لوگوں کو ابھی سے متحرک ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آج اگر ایک کا بیٹا یا بیٹی نشے کا عادی بن چکے ہیں تو کل ہمارے اپنے بھی نشے میں مبتلا ہوسکتے ہیں اسلئے پوری کشمیری سماج کو اس ناسور ،بدعت سے چھٹکارا دلانے کے لئے کی جانے والی کوششوں میں ہم سب کو اپنا اپنا رول ادا کرنا چاہئے ۔