اس وقت رشوت ستانی سے متعلق دو اہم معاملات عوامی حلقوں میں موضوع بحث بنے ہوے ہیں اور لوگوں کی رائے ہے کہ جس طرح حکومت نے ملوثین کے خلاف کاروائی شروع کی ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ آیندہ کوئی بھی سرکاری ملازم از خود کوئی ایسا کام کرنے پر راضی نہ ہوگا جس کے لئے اسے بعد میں پچھتانا پڑسکتا ہے کیونکہ رشوت لے کر جو بھی کام کیا جاتا ہے اگر اس کا کسی کو پتہ نہ بھی چل سکے لیکن اس کا انجام ٹھیک نہیں ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طریقے دھاندلیوں یا حق تلفی کے معاملات منظر عام پر آہی جاتے ہیں۔فاینانس اکاونٹس اسسٹنٹوں کے لئے سروس سلیکشن بورڈ کی طرف سے جوامتحانات لیے گئے ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کا انکشاف ہوا جس پر ان امید واروں نے آسمان سر پر اٹھایا جو ڈراپ کئے گئے تھے اور جنہوں نے بعض دھاندلیوں کی نشاندہی کی جن کی بنا پر لیفٹننٹ گورنر کو ان امتحانات کو نئے سرے سے منعقد کروانے کے احکامات صادر کرنے پڑے البتہ ان لوگون کے خلاف سخت کاروائی کا اعلان کیا گیا جو اس دھاندلی میں ملوث رہے ہیں۔حکومت کی فوری کاروائی کا یہ نتیجہ نکلا کہ سی بی آئی کو تحقیقات کے لئے یہ کیس سونپا گیا جس نے تب سے آج تک ہر ممکنہ جگہ پر چھاپے مارے اور اس دوران سنسنی خیز انکشافات ہوے جن میں ایک انکشاف یہ بھی ہے کہ ایک ایک پرچہ تیس تیس لاکھ روپے میں فروخت کیا گیا ۔سی بی آئی نے ایک کے اے ایس افسر سمیت چودہ ملزماں کی رہایش گاہوں پر چھاپے مارے اور ڈیجیٹل آلات ،کمپیوٹر ،لیب ٹاپ ،موبائیل اور دوسری دستاویزات برآمد کرکے ضبط کرلیں ۔ان کا مشاہدہ کیا جارہا ہے اور مزید انکشافات متوقع ہیں ۔اسی طرح جائیداد کے ایک تنازعے کو حل کرنے کے لئے جموں کرایم برانچ کے ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ پولیس نے مبینہ طور پچاس ہزار کی رشوت حاصل کی ہے اور جب اس کا انکشاف ہوا تو اسے گرفتار کرنے کے بعد معطل کیا گیا ۔سرکار کی رشوت خوروں اور دھاندلیوں میں ملوث افراد کے خلاف اس طرح کی کاروائی عوامی حلقوں میں سراہی جارہی ہے ۔حکومت نے پہلے ہی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ رشوت ستانی کا قلع قمع کرنے کے لئے سخت اقدامات کئے جائینگے۔چنانچہ حکومت نے انٹی کورپشن محکمے کی از سر نو تشکیل دی ہے اور اسے مزید اختیار دے کر اسے فعال بنادیا ہے ۔ اب تک بہت سے سرکاری ملازمین ہی نہیں کئی افسر بھی اس کے شکنجے میں لائے گئے جن پر رشوت ستانی کے سنگین الزامات عاید ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی جاری ہے ۔آج صورتحال یہ ہے کہ کسی بھی سرکاری محکمے میں رشوت ستانی کا نام تک نہیں لیاجارہا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اکا دکا معاملات میں بے ظابطگیاں کی جاتی ہونگی لیکن عام طور پر اب ملازمین رشوت کے لین دین سے حتی الامکان دامن بچاتے ہیں ۔یہ سب کچھ سرکار کی رشوت ستانی کے خلاف کاروائیوں کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کی ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں نے سراہنا کی ہے ۔