ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کی طرف سے اخبارات کے لئے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ اس سال موسم خزان جو شروع ہونے جارہا ہے میں لوگوں کو دوہرے وائیرس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔اس کی وضاحت کرتے ہوے معروف معالج ڈاکٹر نثار الحسن نے کہا کہ ایک فلو دوسرا کووڈ ۔اس دوہرے وائیرس سے بچنے کے لئے ابھی سے احتیاطی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ ممکنہ تیسری لہر میں بچوںکے متاثر ہونے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں اسلئے سب سے پہلے بچوں کو فوری طور فلو ویکسین دیا جانا چاہئے تاکہ وائیرس کے اثرات کم ہوں یعنی اگر خد نخواستہ بچہ کووڈ کی تیسری لہر سے متاثر ہوجاے لیکن اس نے فلو کا ویکسین لیا ہوگا تو اس پر کووڈ کا زیادہ اثر نہیں ہوگا اسلئے بقول ڈاکٹر موصوف بچوں ،بزرگوں ،حاملہ خواتین وغیرہ کو خزان کی آمد سے قبل ہی یعنی اسی مہینے فلو ویکسین دیا جانا چاہئے ۔لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر فلو ویکسین اس قدر ضروری ہے تو سرکاری طور پر یہ لوگوں کے لئے دستیاب کیوں نہیں رکھا جارہا ہے کیونکہ اس کی قیمت فی ویکسین تیرہ سے پندرہ سو تک وصول کی جاتی ہے جبکہ یہ کسی بھی ہسپتال میں دستیاب نہیں ہے ۔اسلئے اتنے مہنگے ویکسین کو ہسپتالوں میں عام لوگوں کےلئے دستیاب رکھا جانا چاہئے ۔تاکہ سب کے سب اس ویکسین کو لے سکیں بصورت دیگر لوگ اس سے اس وجہ سے کتراتے ہیں کیونکہ یہ صرف پرائیویٹ طور پر ہی لوگوں کو دستیاب ہورہا ہے اور اس کی قیمت بہت زیادہ ہے ۔اخبارات اور سوشل میڈیا پر یہ بیان منظر عام پر آنے کے بعد لوگوں نے بذریعہ فون اور تحریری طور پر لکھا ہے کہ چونکہ اس ویکسین کی قیمت بہت زیادہ زیادہ ہے ان حالات میں ان کے لئے اس ویکسین کو لینا ممکن نہیں ۔ادھر ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر نثار الحسن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف مسوری سکول آف میڈیسن کو لمبیا میں کئے گئے ایک سروے میں یہ بات ظاہر کی گئی ہے کہ فلو ویکسین بچوں کو کووڈ سے بچنے کے لئے کچھ حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے اسلئے انہوں نے مشورہ دیا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فلو ویکسین اسی مہینے میں لینا چاہئے ۔دریںاثنا وادی میں کووڈ متاثرین کی تعداد ایک مرتبہ پھر سو سے زیادہ بتائی گئی ۔اور اس وقت 151افراد اس وائیرس میں مبتلا پائے گئے ۔جبکہ تین روز بعد ایک شخص کی موت بھی ہوئی ہے ۔مطلب صاف ظاہر ہے کہ کورونا ابھی گیا نہیں بلکہ برابر موجود ہے اسلئے اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کسی بھی وقت کہیں بھی کوئی کورونا کی زد میں آسکتا ہے ۔لوگوں کو اس حوالے سے بہت زیادہ فکر مند ہونے کی اگرچہ کوئی ضرورت نہیں لیکن احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا جانا چاہئے بلکہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کورونا سے بچا جاے ۔حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ہر ممکن طریقے پر اس بات کو یقینی بناے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ماسکوں کا استعمال کریں تاکہ کورونا وائیرس ایک دوسرے کو نہ لگ سکے ۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے ایام یعنی اکتوبر مہینے میں کووڈ کی تیسری لہر عروج پر ہوگی اور اس کے لئے ابھی سے لوگوں کو احتیاط برتنی چاہئے لیکن جب اِدھر اُدھر نظرجاتی ہے تو بہت کم لوگ بلکہ نہ ہونے کے برابر لوگ ماسک پہنے نظر آتے ہیں اس کے علاوہ سماجی دوری اب کہیں بھی نظر نہیں آتی ہے ۔