کشمیر کی معیشت کے دو اہم ستون ٹوارزم اور ہارٹیکلچر تصور کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک یعنی ٹوارزم میں گذشتہ کئی برسوں سے جان سی پڑ گئی ہے جبکہ میوہ صنعت اور خاص طور پر سیبوں کی فروخت اور برآمد کافی حدتک متاثر ہوئی ہے ۔اس بارے میں فروٹ گروورس اور ڈیلرس کا کہنا ہے کہ ایرانی سیب جو غیر معیاری ہوتے ہیں پورے بھارت میں بکنے لگے ہیں ۔کشمیری سیبوں کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں پھر بھی بھارت کی منڈیوں میں یہ سیب ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض کاروباری ان کو کشمیری سیب ظاہر کرکے فروخت کررہے ہیں جبکہ ایرانی سیب بغیر ٹیکس مارکیٹ میں داخل ہوگئے ہیں ان کو کشمیری سیبوں کے بدلے فروخت کرنے والے کاروباری کافی منافع کماتے ہیں ۔اس سے کشمیری سیب صنعت بری طرح متاثر ہوگئی ہے اگرچہ یہ سیب معیار کے لحاظ سے کسی بھی صورت میں کشمیری سیبوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی لالچ میں بیوپاری ان کو خرید کر اونچے داموں ان کو کشمیری سیب جتلا کر فروخت کررہے ہیں ۔اس پر حکومت کوئی کاروائی نہیں کرتی ہے ۔سوپور فروٹ منڈی جو کہ سب سے پرانی منڈیوں میں سے ایک منڈی تصور کی جاتی ہے سے وابستہ فروٹ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس وقت سیب صنعت کافی نقصان پر چل رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں سیبوں کی برآمد اور فروختگی دونوں سیاست کے شکار ہوگئے ہیں اور دیگر عوامل کی وجہ سے بھی سیب صنعت کافی متاثر ہوگئی ہے ۔فروٹ گروورس کا کہنا ہے کہ کشمیری سیب کا مقابلہ دنیا کا کوئی بھی سیب نہیں کرسکتا ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری سطح پر اس کو پروموٹ کرنے میں نہ جانے کون سی مصلحتیں آڑے آرہی ہیں کیونکہ اس صنعت کو بچانے کی خاطر کوئی بھی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھا یا جارہا ہے ۔لیکن اس کے باوجود حکومت کی نئی سکیم پرواز اور کشمیری سیب کی نیپال اوربنگلہ دیش تک رسائی سے اگرچہ امید کی کرن پیدا ہوگئی تھی لیکن کشمیر سے بنگلہ دیش تک سیبوں کی برآمد میں کچھ رکاوٹیں حایل ہورہی ہیں ۔فروٹ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے بنگلہ دیش کی حکومت نے کشمیر سیب کی ملک میں درآمد پر درآمدی ٹیکس یعنی امپورٹ ڈیوٹی کافی حدتک بڑھادی ہے ۔اس سال امپورٹ ڈیوٹی تقریباً ایک لاکھ کے بجائے اڑھائی لاکھ کردی گئی ہے ۔کشمیر سے میوے یعنی سیبوں سے بھرے ہوے بارہ یا چودہ ٹائیروں والے ٹرک بنگلہ دیشی سرحد تک پہنچ جاتے ہیں تو ان سے اڑھائی لاکھ فی ٹرک امپورٹ ڈیوٹی لی جاتی ہے جو کشمیری تاجروں کے لئے باعث تشویش ہے اور بہت سے میوہ بیوپاریوں کے لئے اس قدر ٹیکس کی ادائیگی کافی مشکل نظر آتی ہے اب بہت کم میوہ بنگلہ دیش بھیجا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ متعدد مرتبہ مرکزی حکومت ،مقامی حکومت کے ساتھ اٹھایا گیا دونوں حکومتوں نے اس مسلئے کو حل کروانے کا یقین دلایا لیکن ابھی تک مرکزی حکومت نے یہ معاملہ سفارتی سطح پر حکومت بنگلہ دیش کے ساتھ نہیں اٹھایا ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کشمیری سیبوں کی مارکیٹنگ کافی حدتک متاثر ہوکر رہ گئی ہے اس وقت نیپال ہی ایک ایسا مارکیٹ ہے جہاں کشمیری سیبوں کی خریداری بڑھتی جارہی ہے ۔فرووٹ گروورس کا کہنا ہے لیفٹننٹ گورنر کو یہ معاملہ مرکز کی نوٹس میں لاکر کشمیری فروٹ بیوپاریوں کے لئے وسیع مارکیٹنگ کے لئے راہ ہموار کرنی چاہئے ۔