16اپریل 2024بروز منگل گنڈ بل بٹہ وارہ میں جو دلخراش سانحہ پیش آیا اس پر ہر آنکھ نم ہے اور ہر دل خون کے آنسو رو رہا ہے ۔صبح صبح یہ خبر جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ جاے واردات کی طرف بھاگنے دوڑنے لگے ۔جس نے بھی اور جہاں بھی یہ جگر خراش خبر سنی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے اور جگر پاش پاش ہوگئے۔دل اداسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا ۔کیونکہ اس سانحہ نے ساری انسانیت کو دہلا کر رکھ دیا ۔کرب و اضطراب کا یہ عالم چاروں اور دیکھنے کو مل رہاتھا ۔جو لوگ جائے واردات پر پہنچ گئے وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگے کیونکہ انہوں نے اس سانحہ میں ڈوبنے والوں کی چیخیں از خود سنیںانہوں نے اپنی آنکھوں سے انہیں پانی میں ڈوبتے ہوئے دیکھالیکن وہ کچھ نہ کرسکے کیوںکہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے جہلم میں پانی کی سطح بہت بلند ہوگئی ہے اور پانی کی رفتار بھی بڑھ گئی ہے ۔جو لوگ ڈوب گئے ان میں زیادہ تر وہ سکول بچے شامل بتائے گئے جنہوں نے ابھی زندگی کی صرف چند بہاریں ہی دیکھی تھیں ۔ان کو کیا پتہ تھا کہ یہ ان کی زندگی کے آخری لمحات ہونگے جب انہوں نے صبح صبح سکول جانے کے لئے تیاریاں کی ہونگی ۔والدین نے ان کو کس پیار سے وردی پہنائی ہوگی ان کو کھلایا پلایا ہوگا ۔ا ن بد نصیب والدین کووہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ صرف چند منٹوں کے بعد ہی ان کے یہ بچے اللہ کو پیارے ہوئے ہونگے ۔کہا جارہا ہے کہ اس سانحہ میں ایک ماں بھی اپنے دو بچوں سمیت جاں بحق ہوئی ہے ۔اس ماں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول چھوڑنے کے لئے اسی کشتی میں سوار ہوئی تھی اور وہ بھی اپنے دو بچوں کے ساتھ ہی ڈوب گئی۔افسوس صد افسوس ۔ابتدائی مرحلے پر جن کی لاشیں برآمد کی گئیں ان کو ایک ساتھ منوں مٹی کے نیچے دفن کیا گیا ۔قلم لکھنے سے قاصر ہے ۔زبان گنگ ہوگئی ہے ۔مقامی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت کوششیں کیں کہ ڈوبنے والوں کو بچایا جاسکے لیکن پانی کی سطح کافی بلند تھی اور پانی اس تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا کہ آناً فاناًوہ لوگ نظروں سے اوجھل ہوگئے جو چیخ و پکار کررہے تھے تاہم اس کے باوجود کئی ایک کو بچالیا گیا ۔یہ بھی بتایا گیا کہ بعض غیر مقامی باشندوں نے بھی بچاﺅ کاروائیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔جوں ہی اس سانحہ کی اطلاع مل گئی پولیس ،ایس ڈی آر ایف ،مارکوس اور دوسری بچاﺅ ٹیمیں جائے واردات پر پہنچ گئیں اور بچاﺅ کاروائیاں شروع کردی گئیں ۔ان کی کوششوں سے کئی ایک کو بچایا گیا ۔آخری اطلاعات ملنے تک لاشوں کی تلاش جاری تھی ۔ڈویثرنل کمشنر کشمیر ،ڈپٹی کمشنر سرینگر ،ایس ایس پی سرینگر اور دوسرے اعلیٰ سول اور پولیس حکام جاے واردات پر پہنچ گئے اور جہلم کے کنارے بچاﺅ کاروائیوں کا از خود مشاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہدایات بھی دیتے رہے ۔گنڈبل سے بٹہ وارہ کا دریائی فاصلہ کچھ زیادہ نہیں لیکن چونکہ پانی کی سطح حالیہ بارشوں سے بلند ہوگئی تھی اور اس کی رفتار بھی بڑھ گئی تھی جس کے نتیجے میں دوران سفر کشتی الٹ گئی اور پھر ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے سب کو دہلا کر رکھ دیا ۔ہر طرف ماتم کا سماں ہے ۔یہ صدمہ صرف ان لوگوں کا نہیں جن کے عزیز اس سانحہ میں جاں بحق ہوئے بلکہ یہ صدمہ ہر کشمیری کا ہے ۔ہر اس شخص کا ہے جو درد دل رکھتاہے ۔ہم سب سوگوار ہیں ۔جو معصوم جانیں اس سانحہ کی نذر ہوگئیں ان کو واپس تو لایا نہیں جاسکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ سے ہی بہتر مداوا کے لئے ہم دست بدعا ہیں ۔ہم سب یعنی کشمیری عوام اس سانحہ عظیم پر غمگین و دل حزین ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ اس نقصان عظیم کا نعم البدل عطا کرے اور جام شہادت نوش کرنے والوں کے درجات بلند کرے ۔آمین