کچھ عرصہ سے وادی میں ایسی وارداتیں رونما ہونے لگی ہیں جو ناقابل یقین ہیں اور ان وارداتوں کا رونما ہونا سب کے لئے اچھنبے کی بات ہے کیونکہ یقین ہی نہیں آتا کہ جس ہستی نے انسان کو جنم دیا اسے اپنا ہی خون موت سے ہمکنار کرسکتاہے ؟15اپریل کو سوپور رفیع آباد میں ایک بیٹے نے اپنی اس ماں کو مبینہ طور پر موت سے ہمکنا ر کردیا جس ماںنے اسے 9مہینے تک اپنے پیٹ میں رکھا اور جنم دینے کے بعد اسے پالا پوسا بڑا کیا اور اس قابل بنایا کہ وہ بر سر روزگار ہوگیا لیکن افسوس سوموار کو اسی بیٹے نے اپنی رفیق و شفیق ماں کی ممتا کا یوں جواب دیا کہ اسے بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا ۔اس واقعے سے پوری بستی ششدر ہوکر رہ گئی ۔ماں ایک ایسی ہستی ہے جسے اسلام میں سب سے اعلیٰ،بلند درجہ دیا گیا ااور جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ۔واقعی ماں ایسی ہستی ہے جس کے ساتھ تلخ کلامی کا انجام بھی جہنم کی آگ ہے ۔لیکن افسوس اس نوجوان پر جس نے اپنی اسی ماں کو مبینہ طور پر چھرا گھونپ دے کر ابدی نیند سلادیا ۔اس شخص کی نشاندہی بھی ہوئی ہے اور اسے پولیس نے گرفتار بھی کرلیا ہے اور اسے حوالات میں بند کردیا گیا۔اب آگے قانون اپنا کام کرے گا ہی لیکن سوچنے والی بات ہے کہ کشمیری سماج کو یہ کیا ہوگیا ہے ؟۔اس سے قبل بھی دو اسی طرح کے واقعات رونما ہوئے ۔شمالی کشمیر میں ایک آوارہ اور بدچلن بیٹے نے اپنے باپ کا خون کردیا جبکہ سرینگر کے صفاکدل علاقے میں بھتیجے نے اپنے چچا کا دن دھاڑے قتل کردیا ۔اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا بذات خود اس بات کی غمازی کرتاہے کہ کشمیری قوم کی حالت کس قدر روز بروز بدتر ہوتی جارہی ہے ۔رشتوں کا تقدس ،عزت و احترام اور بزرگوں کا اب کوئی پاس لحاظ نہیں کرتاہے ۔اب کوئی ایسا درس دینے والا بھی نہیں جو بے لوث ہوکر لوگوں کو دین کی اصل حقیقت بیان کرتا تاکہ لوگ سمجھ سکتے کہ دین اسلام میں والدین کے کیا حقوق ہیں ۔ہمسائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے ۔روزمرہ کی زندگی کس طرح گذارنی چاہئے ۔امانت میں خیانت کے لئے کس طرح کی سزا اسلام میں مقرر ہے ۔کسی کا حق مارنا کس قدر گناہ عظیم ہے ۔گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارے بعض اما م و خطیب اور نام نہاد علماءسوشل میڈیا پر صرف مسلکی جنگ میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ابتدا کہاں سے ہوتی ہے اور کون مسلکی انتشار پھیلا رہا ہے اس سے قطع نظر جو نام نہاد مولوی ،علماءاور خطیب وغیرہ اس طرح کی خباثت پھیلاتے ہیں وہ دین اسلام کی خدمت نہیں بلکہ اپنے پیٹ کی خدمت کرتے ہیں ۔اس وقت سب سے اہم موضوع نوجوانوں کے کردار اور ان کے روزمرہ کے معمولات کو درست کرنا ہے کیونکہ سماج میں اس حد تک بے راہ روی پھیلی ہوئی ہے کہ اگر اس جانب فوری توجہ نہیں دی گئی تو کشمیری سماج دلدل میں دھنس جاے گا جہاں سے نکلنا ناممکن ہوگا ۔ ایسے نام نہاد مولوی لوگوں کی توجہ دین اسلام کی تعلیمات سے ہٹاکر انہیں مسلکی جنگ میں الجھاکر رکھ رہے ہیں ۔اس طرح کی حرکات و سکنات مرتکب ایسے نام نہاد مولویوں اور خطیبوں کا کوئی اپنا مقصد ومشن ہوسکتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ اگر مولوی صاحباں ،امام و خطیب اور علمائے دین لوگوں اور خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے کردار کی شیرازہ بندی پر توجہ مرکوز کرتے تو کوئی بیٹا اپنی ماں کو موت سے ہمکنا ر نہیں کرتا ،کوئی بیٹا اپنے باپ کو دن دھاڑے موت کے گھاٹ نہیں اتارتا اور کوئی بھتیجا اپنے چچا کو قتل کرنے کی جرات نہیں کرتا۔