منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور نشہ آور اشیاءکی سمگلنگ کرنے والوں کی نقل و حمل میں اضافہ ہر کشمیری کے لئے باعث تشویش ہے ۔یہاں کا سنجیدہ طبقہ اس بات پر پریشان ہے کہ کس طرح لوگوں کی ایک مخصوص ٹولی ،گروہ وغیرہ کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک بنانے کے لئے انہیں زہر کھلارہی ہے ۔ان کا ضمیر کہاں سوگیا ؟۔کس کیچڑ میں ان کا ضمیر دب گیا؟ ۔کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کس طرح اپنی ہی قوم کے نوجوانوں کو نشہ آور اشیاءکھلا پلا کر انہیں دماغی طور مفلوج بنارہے ہیں ؟۔جو نوجوان لڑکا ہو یا لڑکی نشہ کی لت میں مبتلا ہوکر اپنی پوری زندگی تباہ و برباد کررہا ہے ان میں منشیات سمگلروں کا کوئی سگا بھی ہوگا ۔کوئی جان پہچان والا بھی ہوگا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کا اپنا بیٹا یا بیٹی بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن ایسے لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہیں وہ صرف پیسہ کمانے کی فکر میں ہیں اور وہ پیسہ کسی بھی طریقے سے ان کی جیبوں میں جانا چاہئے تب کہیں جاکر ان کو اطمینان ہوسکتاہے ۔ان کے دلوں میں خوف خدا بھی نہیں ۔ان کے دل اس قدر سیاہ اور سنگین ہوچکے ہیں کہ انہیں اچھے بُرے کی تمیز ہی نہیں ہے ۔لیکن اب انتظامیہ اور خاص طور پر پولیس ان کے پیچھے ایسے پڑی ہے کہ اب ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے ۔گذشتہ دنوں پولیس نے منشیات سمگلروں کی سرگرمیاں پر قدغن لگانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی بروے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ اب پولیس منشیات کے دھندے میں ملوث افراد کی نقل و حرکت پر نظر گذر رکھنے کے لئے اور ان کی حرکات و سکنات کو ٹریک کرنے کیلئے جی اپی ایس ٹریکران کی ٹانگوں پر باندھے گی۔چنانچہ اس فیصلے کے بعد پولیس نے کپوارہ میں ان دو افراد کی ٹانگوں پر جی پی ایس ٹریکر باندھ دئے جس کے نتیجے میں دو منشیات اسمگلروں جن کو منشیات کا دھندا کرنے کے الزام میں پولیس نے پکڑا تھا اور جن کو عدالت نے ضمانت پر رہا کردیا تھا کی ٹانگوں پر جی پی ایس ٹریکر باندھ دئے ۔ہر کشمیری کو پولیس کے اس طرح کے اقدا مات کو سراہنا چاہئے بلکہ پولیس کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہئے کہ وہ منشیات کا دھندا کرنے والوں کے خلاف کاروائی کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے تاکہ کشمیری نوجوانوں کے مستقبل کو بچا یا جاسکے ۔اس سے قبل ملی ٹینسی کے ایک معاملے میں گرفتار شخص کو جب عدالت نے ضمانت پر چھوڑ دیا اس کو بھی پولیس نے جی پی ایس ٹریکر باندھ دیا تھا تاکہ اس کی نقل و حمل کو مانیٹر کیا جاسکے ۔یہ ایک قابل قبول کاروائی ہے جس سے منشیات کا دھندا کرنے والوں کی کمر ٹوٹ سکتی ہے کیونکہ اس وقت حالات ایسے ہیں کہ کئی لاکھ پڑھے لکھے نوجوان بے روزگاری میں مبتلا ہیں ۔ان میں سے بہت سے دماغی طور فریسٹریشن میں مبتلا ہوگئے ہیں ایسے نوجوانوں کو منشیات کی لت میں مبتلا کرنا آسان ہے لیکن ایمہ مساجد ،سماجی کارکن ،مفکرین ،عالم دین ،اساتذہ اور دیگر لوگوں پر یہ بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ لوگوں اور خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو سمجھائیں کہ منشیات کا استعمال کرنے سے کس طرح پوری زندگی تباہ و برباد ہوجاتی ہے ۔نوجوانوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے ہر ذی حس شخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔اگر ہم سب کچھ انتظامیہ یا پولیس پر چھوڑ دینگے تو ہم اپنی قوم کو کبھی بھی اس ناسور سے نجات دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں۔