ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے آر اینڈ بی ذرایع کے حوالے سے بتایا کہ شہر سرینگر میں ٹریفک نظام کو بہتر بنانے کے لئے پانتھ چوک سے بمنہ بائی پاس تک جو تین فلائی اوور تعمیر ہورہے ہیں وہ اس سال کے آخیر تک مکمل ہونگے ۔ان رپورٹس میں کہا گیا کہ بمنہ بائی پاس پر جو فلائی اوور زیر تعمیر ہے وہ مکمل ہونے کے قریب ہے اور اس سال مئی کے آخر تک اس پر ٹریفک چالو کیا جاے گا۔یعنی اس وقت مئی کا مہینہ رواں ہے اور اس مہینے کے آخر تک اس پر کام مکمل ہوگا۔نوگام اور صنعت نگر میں زیر تعمیر دیگر دو فلائی اوورز جون اور دسمبر تک مکمل ہونگے اور جب ایسا ہوگا تو ان علاقوں میں ٹریفک میں سُدھار آے گا۔آر اینڈ بی ذرایع کے مطابق ان تینوں فلائی اوورز کے چالو ہونے سے بمنہ ،صنعت نگر اور نوگام کے مصروف چوراہوں پر ٹریفک کی بھیڑ پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے ۔ٹریفک کے حوالے سے یہ ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا جاسکتاہے کیونکہ اسوقت ہر روٹ پر ٹریفک جام ہوجاتا ہے ۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جس تیز رفتاری سے زیر تعمیر پروجیکٹوں پر کام ہونا چاہئے ایسا نہیں ہورہا ہے کیونکہ بہت سے ایسے انتہائی نوعیت کے پروجیکٹ جن پر کام سالہاسال قبل شروع کیا گیا ہے لیکن ابھی تک وہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پائے ہیں ۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ڈل گیٹ کا چھوٹا ساپُل ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے ۔جتنی رقم اس کی تعمیر کے لئے مختص رکھی گئی تھی غالباً اس سے زیادہ کی رقم اس پر اسی وجہ سے خرچ ہوئی ہوگی وجہ صرف یہ ہے کہ اس پر کام کی رفتار انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے ۔عام لوگ ہی بہتر جانتے ہیں اس پل کی تعمیر مکمل نہ ہونے سے ان کو کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔سرکاری ملازمین ،طلبہ ،طالبات ،تاجر ،مزدور ،پرائیویٹ ملازمین وغیرہ کبھی بھی وقت پر کام پر نہیں پہنچ پاتے ہیں۔یہی حال نورباغ پل کا ہے جس کی تعمیر کا کام غالباً تیس برس قبل شروع کیا گیا ہے اور جو آج بھی مکمل نہیں ہوا ہے ۔افسر لوگ ڈیڈ لائینیں جاری تو کرتے ہیں لیکن ان پروجیکٹوں کو کبھی نہیں مکمل کر پاتے ہیں اور یہ ڈیڈ لائینیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔سڑکوں کا حال بے حال ہے ۔گلی کوچے تو خستہ ہیں ۔باہر کی ریاستوں میں دیکھا گیا ہے کہ سڑکوں یا گلی کوچوں یا رابطہ سڑکوں پر جو بھی کام ہوتاہے وہ دن کو نہیں کیا جارہا ہے اور وہ بھی اسوقت جب ان سڑکون پر لوگوں کا رش رہتاہے ان حالات مین کام کیسے مقررہ وقت کے اندر اندر پایہ تکمیل کو پہنچ پاسکتا ہے ۔ یہاںایسا کیوں کیا جاتا ہے یہ متعلقہ حکام ہی بہتر جانتے ہونگے ۔کیا سرکاری پیسہ اس طرح ضایع نہیں ہوجاتاہے ؟اس وقت مہاراجہ بازار میں سڑکوں پر ٹائیل بچھائے جارہے ہیں تو یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ کاریگروں کو کام کرنے میں کس قدر دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ایک تو لوگوں کا رش ،دوسرے ریڈے والوں کی بھیڑ بھاڑ اور پھر دکانداروں کی طرف سے سڑکوں پر مال رکھنے سے اس کام کے مقررہ وقت تک پایہ تکمیل کو پہنچانا نا ممکن لگ رہا ہے ۔اس لئے متعلقہ حکام کو اندھیروں میں تیز پھینکنے کے بجائے حقایق کا اعتراف کرنا چاہئے اگر سڑکوں کی تعمیر و تجدید کا کام رات کے دوران جاری رکھا جاتا تو پیسے کی بچت بھی ہوگی اور کام بھی اچھی طرح سے ہوپاتا۔لوگ روز ڈیڈ لائینوں کے بارے میں سُن سُن کر تنگ آگئے ہیں اسلئے کام اس طرح کرنا چاہئے کہ وہ مقررہ وقت کے اندر اندر اور مختص رقومات کے دائیرے میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ سکے ۔