وادی میں سیلاب کا خطرہ ٹل گیا ۔یہ خبر سن کر لوگوں نے راحت محسوس کی ۔یعنی دو دنوں کی موسلادھار بارشوں سے وادی بھر میں سیلاب کی سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔سال 2014میں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال پیدا ہوگئی تھی یعنی اس سال بھی انتظامیہ خواب خرگوش میں تھی اور ادھر سے سیلاب نے تباہی مچادی۔سیلاب کا پانی جب اتر گیا تو اس وقت کی وزیر اعلی نے ماہرین کا اجلاس بلا کر ان سے یہ دریافت کرنے کی کوشش کی کہ سیلاب کے خطرات کو کس قدر ٹالا جاسکتا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ ماہرین نے اس وقت کی خاتون وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ جب تک جہلم کی مکمل طور پر ڈرجنگ نہیں کی جاے گی تب تک سیلاب کا خطرہ برقرار رہے گا۔اس کے بعد جہلم کی ڈرجنگ کا ٹھیکہ کولکتہ کی ایک فرم کو دیا گیا جس نے اس حوالے سے کام شروع کردیا لیکن ایک دن وزیر اعلی نے اچانک جہلم کے مختلف مقامات کا دورہ کرکے پایا کہ فرم نے قابل قدر کاروائی نہیں کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ اس فرم کا ٹھیکہ منسوخ کیا گیا اور ایک مقامی فرم کو ڈرجنگ کا کام سونپا گیا ۔اس فرم نے کیا قابل ذکر کام کیا ہے یا نہیں ؟ اس سے قطع نظر اگر ہم آج کی سیلابی صورتحال کا بغور جایزہ لینگے تو یہی محسوس ہوگا کہ جہلم کو ڈرجنگ کی اب بھی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس کی اطمینان بخش طریقے پر ڈرجنگ کی جاتی تو اس میں پانی کی سطح اس قدر اونچی نہیں ہوتی جتنی آج ہوئی ہے ۔اس کے علاوہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہلم کے معاون ندی نالوں کے کناروں پر ناجائیز تجاوزات سے بھی سیلا ب کا خطرہ پیش آیا ۔ان ماہرین نے کہا کہ جب تک ناجائیز تجاوزات کو ہٹایا نہیں جاے گا سیلاب کا خطرہ برابر یہاں منڈلاتا رہے گا۔یہ سچ بھی ہے دریا اور ندی نالون کے کناروں پر بڑی بڑی تعمیرات کھڑی کردی گئیں ہیں ۔لیکن کوئی بھی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ۔اسی طرح شہر کے جن علاقوں میں سڑکیں زیر آب آگئی ہیں ان میں سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ جو ڈرین ان علاقوں میں ہے ان کی صفائی کبھی نہیں کی جاتی ہے جیسا کہ ان علاقوں کے مکینوں نے بتایا ۔ بمنہ حاجی آباد کے شہریوں کے وفد نے بتایا کہ اس علاقے میں جو دو ڈرینز ہیں ان کے لئے قمر واری میں ڈی واٹرنگ سٹیشن رکھا گیا ہے لیکن جب بھی بارش یا برفباری ہوتی ہے تو بمنہ کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں لیکن بقول ان کے اس ڈی واٹرنگ سٹیشن کو چالو نہیں کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سالہاسال سے ان ڈرینوں کی صفائی نہیں کی جاتی ہے اور متعلقہ محکمے جن میں یو ای ای ڈی ،میونسپلٹی وغیرہ شامل ہیں اس معاملے میں خاموش ہیں کیونکہ جب بقول ان کے احتسابی عمل نہیں ہے تو ان ڈرینوں کی صفائی بھی نہیں کی جاتی ہے جبکہ بقول ان کے بل تو مبینہ طور نکالے جاتے ہیں ؟مقامی لوگوں کے ان الزامات میں کہا ں تک سچائی ہے اس سے قطع نظر متذکرہ محکموں کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی چاہئے کیونکہ سیلاب کے پانی سے ایک تو تباہی مچ جاتی ہے اور دوسرا اہم مسلہ یہ ہے کہ اس سے بیماریاں پھیلتی ہین ۔لوگوں نے اس بارے میں لیفٹننٹ گورنر کی توجہ اس جانب مبذول کروائی ہے اور ان سے اپیل کی گئی کہ متعلقہ محکمہ جات سے اس بارے میںباز پرس کی جائے تاکہ جو صورتحال آج پیدا ہوگئی ہے وہ دوبارہ پیدا نہ ہوسکے ۔