جہلم اور اس کی معاون ندیوں میں پانی کی سطح اگرچہ مسلسل گررہی ہے لیکن اس کے باوجود ضلع کپوارہ میں ابھی بھی صورتحال معمول پر نہیں آسکی ہے ۔کپوارہ ،ہندوارہ اور لنگیٹ تحصیلوں میں سینکڑوں کنال زمین ابھی بھی زیر آب ہے جس میں دھان کے کھیت ،میوہ باغات اور مختلف بستیاں شامل ہیں ۔یہ اطلاع بھی موصول ہوئی ہے کہ ابھی بھی دو درجن سے زیادہ تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن تک طلبہ یا عملے کی رسائی ممکن نہیں کیونکہ یہ ابھی بھی زیر آب ہیں ۔ان سکولوں کی تعداد33بتائی گئی جن میں پانی کی وجہ سے کلاس ورک معطل رکھی گئی ہے کیونکہ بچوں کے لئے ان سکولوں کی طرف رخ کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔کیونکہ ابھی بھی کئی سڑکیں باغ اور کھیت کھلیان زیر آب ہیں ۔اگرآنے والے دنوں تک پانی میں کمی نہیں ہوگی تو ماہر ڈاکٹروں کے مطابق اس سے بیماریاں بھی پھیل سکتی ہیں کیونکہ موسم خشک ہے اور کل دن بھر کھلی دھوپ رہی۔اطلاعات کے مطابق سیلاب کے پانی سے متعدد بجلی کے کھمبے اور ترسیلی لائنیں گرگئیں جس سے درجنوں دیہات میں پینے کے صاف پانی کی قلت اور بجلی کی فراہمی میں خلل پیدا ہوگیا ہے ۔آفات سماوی پر کسی کا بس نہیں اور اس کو روکا بھی نہیں جاسکتاہے لیکن ضلع حکام کو چاہئے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ پانی کی سطح تیزی سے کم ہوسکے ۔انتظامیہ کی طرف سے ڈی واٹرنگ سسٹم کو ترجیحی بنیادوں پر چالو کیا گیا ہے لیکن صورتحال کو دیکھتے ہوے مزید پمپ چالو کرنے سے پانی کی سطح میں کمی ہوسکتی ہے ۔اگرچہ ضلع انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کو راحت پہنچانے کے لئے بھر پور اقدامات کئے جارہے ہیں لیکن موسم کی قہر سامانیوں کا کس طرح مقابلہ کیا جاسکتاہے ۔یہ سب کچھ تو قدرت کے ہاتھوں میں ہے پھر بھی ضلع انتظامیہ پولیس ،اور دوسرے رضاکاروں ،مقامی نوجوانوں اور مختلف محکموں کے ملازمین نے جس جانفشانی سے لوگوں کو راحت پہنچانے کی کوشش کی وہ قابل ذکر ہے ۔بعض نے تو اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کے جان و مال کو بچایا ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جن لوگوں کے مکان ،دکانیں اور دوسرے ڈھانچوں کے علاوہ کھیت کھلیان اور میوے کے باغات تباہ ہوگئے ہیں ان کی باز آبادکاری کیلئے حکومت نے کیا سوچا ہے کیونکہ کہا جارہا ہے کہ نقصان کا تخمینہ لگایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لئے محکمہ مال کے اہلکاروں اور افسروں کو کام پر لگادیاگیا ہے ۔جو میوہ باغات وغیرہ کو ہوئے نقصان کے بارے میں تفصیلات جمع کررہے ہیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بارشوں اور ژالہ باری سے جنوبی ،شمالی اور وسطی کشمیر میں بہت زیادہ میوے کو نقصان پہنچا ہے اسلئے محکمہ ہارٹیکلچر ،ایگریکلچر وغیرہ کو ماہرین کے ذریعے سروے کروانا چاہئے کیونکہ ماہرین ہی نقصانات کا بہتر طور پر تخمینہ لگاسکتے ہیں۔بعد میں اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہے کہ جو متاثرین ہونگے ان کو جلد از جلد معاوضہ دیا جاسکے تاکہ وہ نئے سرے سے روزگار سے جڑے معاملات طے کرسکیں ۔اگر ان کو وقت پر معاوضہ نہیں دیا جاے گا تو ان کے لئے کافی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔