یہاں ہر برس سرکار کی طرف سے پالی تھین کے استعمال پر پابندی سے متعلق احکامات صادر کئے جاتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان احکامات کو لوگ پاﺅں تلے روند کر چلے جاتے ہیں ۔اس سے ماحولیاتی نظام درہم برہم ہورہا ہے ۔گرمیوں میں گرم ترین موسم اور سردیوں کے موسم میں سخت سردیاں اس بات کی غماز ہیں کہ یہاں پورا ماحولیاتی نظام بگڑ کررہ گیا ہے اور لوگ اس کے لئے براہ راست ذمہ دار ہیں ۔آج وادی کشمیر میں پالی تھین لفافے بنانے کا کوئی یونٹ کام نہیں کررہا ہے لیکن دکاندار باہر سے پالی تھین منگوا کر یہاں ماحولیاتی تباہی مچانے کے لئے براہ راست ذمہ دار ہیں لیکن لوگوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیاجاسکتاہے ۔کیونکہ سرکاری تنبیہ کے باوجود لوگوں نے کبھی بھی پالی تھین لفافوں کا استعمال ترک نہیں کیا بلکہ پہلے سے زیادہ لوگ سودا سلف لانے کے لئے پالی تھین کا استعمال کررہے ہیں جس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں ۔ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ یہاں سینکڑوں کنال زمین اب قابل کاشت نہیں رہی ہے کیونکہ اس زمین پر پالی تھین کے لفافے ڈالے گئے اور وہ مٹی میں مل کر زراعت کے لئے سم قاتل بن کر رہ گئے ہیں ماہرین زراعت کا کہنا ہے کہ جس مٹی میں پالی تھین مل گیا اس مٹی سے کسی فصل کی امید عبث ہے ۔اسی طرح جس پانی کے ذخیرے یا آبی پناہ گاہوں میں پالی تھین موجود رہا وہاں کا پانی انتہائی گدلہ اور ناقابل استعمال بننے کے علاوہ آبی مخلوق کے لئے زہر بن رہا ہے اور خاص طور پر مچھلیاں اس طرح کی گندگی سے پرُ پانی میں نہیں رہ سکتی ہیں اور عنقریب یہ آبی ذخائیر بھی خشک ہوتے چلے جاتے ہیں ۔آبی پناہ گاہوں یا ذخائیر میں کون لوگ پالی تھین اور دوسری گندگی ملاتے ہیں اس کے لئے بھی ہم ہی ذمہ دار ہیں اور جب تک لوگوں میں اس حوالے سے شعور نہیں آ ے گاتب تک یہ مصیبت ہم سب کے گلے میں اٹکتا رہے گا۔وادی جہاں کے آبشار ،قدرتی جھرنے ،جھیلیں جن کا بلوریں پانی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا آج وہ آبشار ،قدرتی جھرنے یا جھیلیں نظر نہیں آرہی ہیں ۔کیونکہ لوگوں کی خود غرضی نے ان قدرتی آبشاروں کو نیست و نابود کرنے میں بد ترین رول ادا کیا ۔کچھ عرصہ قبل آبی ذخائیر کی موجودہ صورتحال کا جائیزہ لیا گیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان آبی ذخائیر میں صرف پالی تھین پایا گیا جس سے ایک تو ان کا پانی زہر آلودہ بن گیا اور دوسری بات یہ ہے کہ آبی مخلوق کا وجود ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ہر معاملے میں حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کی لوگوں کی عادت ابھی گئی نہیں ۔اب بھی لوگ پالی تھین سے ماحولیاتی تباہی کے لئے سرکا رکو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اس کے لئے صرف لوگ ذمہ دار ہیں ۔پالی تھین کے بجاے کپڑے یا کاغذ کے بیگ استعمال کئے جاسکتے ہیں لیکن کوئی بھی مائی کا لال گھر سے کپڑے یا کاغذ کا بیگ لے کر ساگ سبزیاں خریدنے کے لئے نہیں نکلتا ہے بلکہ معمولی سی معمولی چیز تک پالی تھین لفافوں میں بھر کر لائی جاتی ہے اسلئے جب تک ہم خود میں سدھار نہیں لاینگے اور ماحولیات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرینگے تب تک کچھ نہیں ہوسکتا ہے ۔