ڈویثرنل کمشنر وجے کمار بدھوری نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی کوشش کریں تاکہ لوگ جلد از جلد منزل مقصود پر پہنچ سکیں ۔انہوں نے کہا کہ کنیکٹیوٹی اور اس سے ٹریفک کی روانی کو آسان بنانے اور ٹریفک جامنگ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ لوگ زیادہ سے زیادہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں ۔انہوں نے کہا کہ پبلک ٹرانسپورٹ قابل بھروسہ ہے اور اس میں بہت زیادہ سہولیات ہیں ۔انہوں نے اس بات کا بھی تفصیلی طور پر خلاصہ کیا کہ حکومت دریائی نقل و حمل کو بھی تلاش کررہی ہے اور اسے کس طرح مربوط بنانا ہے اس بارے میں ماہرین صلاح مشورہ کررہے ہیں۔عام لوگوں نے شہر سرینگر میں سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے اہتمام سے چلائی جانے والی گاڑیوں یعنی ای بس سروس کا پہلے ہی خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ اس سے لوگوں کو واقعی بھر پور راحت مل گئی ہے ۔لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی تعداد بڑھائی جاے ۔سب سے مثبت طریقہ اس بس سروس کا یہ ہے کہ یہ گھنٹوں سواریوں کا انتظار نہیں کرتی ہے ۔لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں نہیں ٹھونسا جاتا اوراوور لوڈنگ کی صورت میں صرف اتنی ہی سواریوںکو بٹھایا جاتاہے جتنی ان کو حکومت کی طرف سے اجازت دی گئی ہے ۔اس طرح شہر سرینگر میں یہ سروس نہایت ہی مقبول بن گئی ہے ۔خاص طور پر درگا ہ لال بازار ،باغ علی مرداں خان ،علمگری بازار حول وغیرہ روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کی وجہ سے لوگوں کو زبردست راحت مل رہی ہے لیکن کبھی کبھار یہ گاڑیاں اچانک غائیب ہوجاتی ہیں جن سے لوگ پریشان ہوتے ہیں ۔یہ بات بھی قابل سراہنا ہے کہ سمارٹ سٹی پروجیکٹ کے تحت چلنے والی گاڑیاں رات گئے تک چلتی رہتی ہیں خواہ ان میں کوئی سوار ہو یا نہ ہو۔لیکن اب موسم گرما آرہا ہے اور آہستہ آہستہ لوگ اب شام کے بعد ان ہی گاڑیوں کو رخ کرینگے ۔بہت سے دکانداروں جو لال بازار ،بثرھ پورہ ،صورہ ،نوشہر ہ وغیرہ میں رہتے ہیں اور جن کی دکانیں لال چوک اور اس کے گرد و نواح میں ہیں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی گاڑیوں میں سفر کرنا ترک کردیا ہے بلکہ وہ شام کو دکانیں بند کرنے کے بعد ان ہی سرخ رنگ کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور آرام سے گھر وں کو پہنچ جاتے ہیں نہ پارکنگ کا ٹینشن اور نہ ٹریفک جامنگ کیونکہ اگر زیادہ سے زیادہ لوگ ان ہی ای بسسز میں سفر کرنا شروع کردیں تو ٹریفک جامنگ کا مسلہ نہیں رہ سکتا ہے کیونکہ سڑکوں پر اس سے نجی گاڑیوں کا استعمال کم ہوگا ظاہر ہے کہ اس سے سڑکوں پر چلنے والوں کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کو بھی چلنے میں آسانی ہوگی۔دہلی اور دوسری میٹرو پالیٹن شہر وں میں جو لوگ سوسائیٹیوں میں رہتے ہیں وہ پول کے ذریعہ گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں یعنی آج ایک شخص نے اپنی گاڑی نکالی وہ اپنے چار پانچ ہمسائیوں کو اس میں سوار کرکے ان کے دفتر دکان یا کام کی جگہوں پر چھوڑتا ہے اسی طرح دوسرے دن دوسرا ہمسائیہ اپنی گاڑی نکالتاہے ۔غرض سڑکوں پر ٹریفک جامنگ سے نمٹنے کے لئے لوگ از خود کوششیں کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے ۔کئی برس قبل حکومت نے دریائی ٹرانسپورٹ چلانے کا بھی فیصلہ کیا تھا وہ منصوبہ بھی ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔اسلئے بڑھتے ہوئے ٹریفک سے نمٹنے کیلئے بھر پور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ۔