اس سال خشک سالی کی وجہ سے وادی میں آبی ذخائیر سوکھنے لگے ۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی نے اس بارے میں اپنی خصوصی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا ہے دریائے جہلم جس کا پانی کبھی ٹھاٹھیں مارتا ہوا اور شور مچاتا ہوا بہتا رہتا تھا آج اس قدر خاموش ہوگیا ہے جیسے اس کا وجود ہی ختم ہوگیا ہو ۔ایجنسی رپورٹ کے مطابق دریائے جہلم میں پانی کی اوسط سطح زیادہ سے زیادہ ایک تا دو فٹ سے زیادہ نہیں رہا ہے اور رہی سہی کسر ریت مافیا نے پوری کردی جس نے اس کی سطح کو بیدردی سے کھروچ کھروچ کر اس قدر ناہموار بنایا کہ آبی حیات ناپید ہونے لگے کیونکہ ان کی قدرتی پناہ گاہیں نیست و نابود کردی گئیں ۔خاص طور پر جنوبی کشمیر میں جو ریت مافیا نے حد ہی کردی بتایا جاتا ہے کہ وہاں ریت مافیا رات کے دوران ریت وغیرہ نکالنے کے لئے جے سی بی کا استعمال کررہا ہے اس طرح اس خوبصورت دریا کی حالت بگاڑ دی گئی ۔خشک سالی سے وادی بھر میں ندی نالے ،تالاب کنوئیں ،چشمے اور جھیل سوکھ گئے اور ان میں پانی کی سطح بہت کم رہ گئی ۔کئی کئی مقامات پر ایسا لگ رہاہے کہ یہاں کبھی ندی نالے تالاب یا کنوئیں تھے ہی نہیں کیونکہ سوکھنے سے وہاں چٹیل میدان نظر آرہے ہیں۔کہا جارہا ہے کہ تین مہینوں کی خشک سالی سے آبی ذخائیر کا یہ حال ہوگیا ہے اور اس سے 70سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے ۔یعنی ستر برس پہلے بھی اسی طرح یہاں خشک سالی پیدا ہوگئی تھی ۔لیکن اس وقت یہ حال نہیں ہوا ہوگا کیونکہ اس وقت آبادی بہت کم تھی ۔ندی نالوں ،دریا کناروں وغیرہ پر کسی نے ناجائیز قبضہ نہیں کیا تھا اور چشمے اس وقت برابر پانی سے لبالب بھرے رہتے تھے کیونکہ چشمے خشک سالی کے باوجود سوکھتے نہیں ۔لیکن آج صورتحال کچھ مختلف ہے کہا جارہا ہے کہ ہارون سے نشاط شالیمار تیل بل اور گرد و نواح میں ہزاروں چھوٹے بڑے چشمے تھے ۔جن کا وجود کہیں نظر نہیں آرہا ہے وہ کہاں گئے ؟ ان کو آسمان کھاگئی یا زمین نگل گئی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ خشک سالی سے بجلی اور پانی کی قلت پیدا ہوگئی ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ آج کل بجلی میں باربار خلل اب روز مرہ کا معمول بن گیا ہے ۔درجنوں بستیوں میں کئی کئی دنوں تک پانی کی فراہمی بند کردی جاتی ہے اور پوری وادی میں اس حوالے سے ہاہا کار مچاہواہے ۔جہاں تک بجلی کا تعلق ہے تو اس وقت لوگ سمجھ دار ہیں ۔بجلی چوری سے لوگ اب اجتناب کرنے لگے ہیں ۔فیس بھی باقاعدگی سے ادا کیا جارہا ہے اور ہاں اگر کسی کے پاس بجلی فیس بقایا ہوگا تو وہ سرکاری محکمے ہونگے ۔ان سے فیس وصول کرنے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہئے ۔لیفٹننٹ گورنر نے کل بجلی کے بارے میں جو اعلان کیا ہے اس پر عام لوگوں میں جہاں مثبت ردعمل ظاہر کیا جارہا ہے وہیں دوسری جانب لوگ ان انجنئیروں اور افسروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہے ہیں جو بلاوجہ عام لوگوں کو ہی ذمہ دار ٹھہراکر اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔لیفٹننٹ گورنر کو ایسے افسروں اور انجنئیروں سے بازپرس کرنی چاہئے ۔