شادی بیاہ کی تقریبات پر ہم کس قدر فضول خرچیاں کرتے ہیں اس کا کوئی حساب نہیں ۔فضول خرچی کرنے والوں میں مڈل کلاس طبقے سے وابستہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ دکھاوے کے لئے اپنا سب اثاثہ گروی بھی رکھنے کو تیار ہوتے ہیں ۔بنکوں کے علاوہ دوست احباب سے قرضہ لینے میں عار تک محسوس نہیں کرتے ہیں کیونکہ ان کو دکھاوے کی ایسی بیماری لگ گئی ہے جس کا حکیم لقمان کے پاس بھی علاج نہیں تھا۔اب تک ہزاروں بار وادی میں ذی عزت شہریوں نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح شادی بیاہ کی تقریبات پر فضول خرچیوں کو روکا جاے ۔مہمانوں کی تعداد محدود رکھی جاے اور پکوانوں کی تعداد بھی کم کی جاے اس کے ساتھ ہی تحفے تحایف دینے اور لینے پر مکمل پابندی عاید کی جاے لیکن ایسے مخلص لوگ اپنی ان کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔اگرچہ بعض نوجوان دکھاوے کے لئے کہتے ہیں کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات پر بطور جہیز ایک پیسہ تک نہیں لینگے لیکن خفیہ طور پر باضابطہ جہیز لیا جاتاہے ۔فضول خرچیوں اور جہیز کی وبا کو صرف ایک طبقہ روک سکتاہے اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ اور وہ طبقہ ہے ’نوجوان‘۔لیکن جیسا کہ دیکھا جارہا ہے آج کا نوجوان بھی جہیز کے خلاف نہیں وہ بھی شادی بیاہ کی آڑ میں زیادہ سے زیادہ جہیز لینا چاہتاہے ۔اگر نوجوان اٹھ کھڑے ہونگے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت جہیز کا لین دین جاری رکھنے کی ہمت نہیں کرسکتی لیکن نوجوان ہی اس کے لئے تیار نہیں ۔ہوسکتا ہے کہ ایک آدھ نوجوان واقعی جہیز اور فضول خرچی کے خلاف ہو ںلیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی ۔آج کا نوجوان کیونکر زیادہ جہیز چاہتا ہے کیونکہ نوجوان طبقہ دین سے دور ہورہا ہے ۔اس طبقے کو دین کی کوئی واقفیت نہیں ہوتی ہے اور نہ یہ دین سے قریب تر ہونے کی کوشش کرتا ہے ۔آج کا نوجوان گھنٹوں بھر موبایل سے لگا رہتا ہے لیکن دین کی طرف نہیں آتا ہے ۔یہ افسوس کا مقام ہے ۔چنانچہ اب مرکزی حکومت نے لوگ سبھا میں ایک بل یعنی شادیوں کے موقعے پر فضول خرچیوں اور جہئز پر روک لگانے کے لئے بل پیش کردیا گیا جس پر اب بحث ہوگی ۔پنجاب کے ایک معزز ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ اس بل کا مقصد فضول خرچی والی شادیوں کے کلچر کو ختم کرنا ہے جس سے خاص طور پر دلہن کے خاندان پر بہت بڑا مالی بوجھ پڑتاہے ۔رکن پارلیمنٹ جسبیر سنگھ گل نے بتایا کہ انہوں نے سال 2019میں پنجاب کے پھگواڑہ میں ہوئی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کی ۔جس دوران اس کے ذہن میں فضول خرچیاں روکنے کے بل کا تصور اُمڈ آیا۔انہوں نے کہا کہ شادی کی اس تقریب پر 285پکوان بنائے گئے تھے جبکہ انہوں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ 129پکوان ایسے تھے جن کی طرف کسی نے دیکھا تک نہیں اور مہمانوں نے ان پکوانوں میں سے ایک چمچہ بھی استعمال نہیں کیا ۔یہ سب ضایع ہوگیا ۔ادھر جب ہم اپنی شادیوں کا حال دیکھتے ہیں تو وہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے کتنا وازہ وان ہم ضایع کرتے ہیں کتنے چاول اور گوشت سے بنائے ہوئے پکوان آخر کار کتوں کے سامنے ڈالتے ہیں اور کتے بھی اس قدر تنگ آتے ہیں کہ اب وہ بھی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے ہیں ۔اب یہ بل پاس ہو یا نہ ہو لیکن نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں سادگی سے شادیاں کریں اسی میں ان کی اور کشمیری سماج کی بھلائی کا راز مضمر ہے ۔