ا نڈین انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی مدراس نے انکشاف کیا ہے کہ اومیکران سماجی پھیلاﺅ کے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور اگلے دو تین ہفتے ایسے آنے والے ہیں جن میں یہ وبائی مرض انتہائی درجے پر ہوگا یعنی بے شمار لوگ اس کا شکار بن جاینگے اسلئے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ہر صورت میں احتیاط برتیں اور کسی بھی طور غفلت شعاری کا مظاہرہ نہ کریں۔کورونا وائیرس کا نیا وائیرینٹ اومیکران اگرچہ ابھی تک مقابلتاً جان لیوا ثابت نہیں ہوسکا ہے یعنی اس میں مبتلا ہونے والے افراد جلد صحت یاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اگر اس سے نمٹنے میں ذرا سی بھی بھول چوک ہوجاے گی تو انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اسلئے کوئی بھی وبائی بیماری ہو ہر حالت میں احتیاطی تدابیر اختیا رکرنے کی ضرورت ہے ۔متذکرہ بالا انسٹی چیوٹ کے ذرایع نے خبردار کیا ہے کہ فروری کے ایام اومیکران کے حوالے سے کافی حساس ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان ایام میں اومیکران اپنے شباب پر ہوگا۔جہاں تک وادی کا تعلق ہے تو یہاں ہر روز وبائی بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔سرکاری طور پر جو اعداد و شمار پیش کئے جارہے ہیں ان کے مطابق صرف ضلع سرینگر میں 1464افراداتوارکو اس وباءمیں مبتلا ہوے ہیں جبکہ اس کے بعد بڈگام کا نمبر آتا ہے جہاں وبائی بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی تعدا د 590بتائی گئی ۔سب سے کم تعداد میں ضلع شوپیان میں لوگ اس میں مبتلا ہوگئے ہیں ان کی تعداد صرف 54بتائی گئی بہر حال کچھ بھی ہو ہر شخص کو زبردست احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ آنے والے ایام اس حوالے سے حساس ثابت ہوسکتے ہیں ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بازاروں ،دکانوں اور دوسرے مقامات پر اب پھر سے لوگ بغیر ماسک گھومتے پھرتے نظر آرہے ہیں ۔ایسے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ اس طرح نہ صرف اپنی زندگیوں بلکہ اپنے بال بچوں اہل خانہ اور ان لوگوں کو جو ان کے رابطے میں آتے ہیں کی زندگیوں سے کھلواڑ کا باعث بنتے ہیں۔اگرچہ پولیس جگہ جگہ لوگوں پر جرمانے عاید کرتی ہے ۔انہیں مفت ماسک فراہم کرتی ہے لیکن پھر بھی ایسے لوگ ہیں جو ماسکوں کے بغیر رہتے ہیں اور اس طرح وبائی امراض پھیلانے کا موجب بن جاتے ہیں ۔یہ لوگ کسی بھی طور سماج انسان اور انسانیت کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ پہلے خود تو اپنے آپ کے دشمن ہیں اس کے علاوہ یہ اپنے اہل خانہ بال بچوں اور دوسرے جان پہچان والوں کے بھی دشمن ہین ایسے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آنا چاہئے جو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں غفلت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔سرکاری طور پر اس وباءپر قابو پانے کے لئے بھاری رقومات خرچ کی جاتی ہیں آکسیجن کے علاوہ مختلف قسم کی ادویات ٹیسٹوں وغیرہ کے علاوہ ویکسنیشن پر بھی کروڑوں کی رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن جو لوگ بے احتیاطی برت رہے ہیں وہ سرکاری اقدامات پر پانی پھیر دیتے ہیں اسلئے لوگوں کو چاہئے کہ وہ نہ صرف خود احتیاط برتیں بلکہ دوسرے ایسے لوگوں جو اس بارے میں غفلت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہیں کو تلقین کریں کہ وہ احتیاط برتیں تاکہ لوگوں کی جانیں بچ سکیں اور وبائی امراض کو شکست فاش دی جاسکے ۔