آخری اطلاعات ملنے تک ابھی تک جہلم سے لاشیں برآمد نہیں کی جاسکی تھیں۔گزشتہ شب ڈپٹی کمشنر سرینگر نے ہدایت دی تھی کہ سرچ اوپریشن رات دیر گئے تک جاری رکھا جاے گا چنانچہ نصب شب تک سرچ اوپریشن جاری رکھنے کے بعد اسے معطل کردیا گیا اور کل صبح دوبارہ ایس ڈی آر ایف،این ڈی آر ایف اور پولیس اور آرمی کی ٹیمیں لاشیں تلاش کرنے کے کام میں مصروف رہیں۔جبکہ کئی نوجوان بھی از خود تلاشی اوپریشن میں شامل ہوئے ۔پلوامہ سے بعض ماہر غوطہ خوروں نے بھی اعلان کیا کہ وہ بھی لاشوں کی تلاش میں شامل ہونگے ۔اس دوران سرکاری طور پر بتایا گیا کہ کل صبح جب تلاشی اوپریشن شروع کیا گیا تو نہ صرف جاے واردات پر بلکہ جہلم میں ان مقامات پر بھی تلاشی کا عمل شروع کیا گیا جہاں لاشیں ملنے کی امید ہے ۔قارئین کرام کو معلوم ہوگا کہ 16اپریل منگل کو صبح کے وقت گنڈ بل سے بٹہ وارہ گھاٹ تک سواریوں سے بھری ایک کشتی بیچ دریا الٹ گئی جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق 19افراد ڈوب گئے جن میں سے دس کو بچالیا گیا ۔ان دس میں سے تین اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ چھ کی لاشیں برآمد کرلی گئیں ۔تین افراد لاپتہ ہیں جن کی شناخت شوکت احمد شیخ ،اس کے بچے حازق شوکت شیخ اور ایک اور طالب علم فرہان وسیم کے بطور ہوئی ہے ۔اس سانحے سے پوری وادی میں رنج و الم کی ایسی لہر دوڑ گئی کہ اب بھی فضا سوگوار ہے ۔گنڈہ بل میں متاثر گھرانوں میں دن بھر تعزیت پرسی کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔کہا جارہا ہے کہ جن گھرانوں کے عزیزوں کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں کی جاسکیں ان میں سے بیشتر نے پوری رات جہلم کے کنارے پر گزاری ۔وہ آہ و زاری کرتے ہوے جہلم کی لہروں کی طرف دیکھتے رہے ۔کل بھی آخری اطلاعات ملنے تک ہزاروں لوگ جہلم کے دونوں کناروں پر سرچ اوپریشن کا مشاہدہ کرتے رہے ۔اس سانحہ نے لوگوں کے دلوں پر ایسے گھاﺅ لگائے اور ایسے زخم دئے شاید ہی وہ کبھی مندمل ہوسکتے ہیں۔کل بھی اعلی سول اور پولیس حکام جاے واردات کے علاوہ جہلم میں دوسرے ایسے مقامات پر تلاشی اوپریشن کا ازخود مشاہدہ کرتے رہے جہاں سے لاشیں ملنے کے امکانات ظاہر کئے جارہے تھے ۔ماہر غوطہ خوروں کی رائے ہے کہ لاشیں چھتہ بل ویر کے قریب برآمد کی جاسکتی ہیں ۔بہر حال تلاشی اوپریشن دن بھر جاری رکھا گیا ۔ادھر عوامی حلقوں نے لیفٹننٹ گورنر سے اپیل کی ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو بھر پور مالی امداد فراہم کی جاے۔اس سانحے نے ایک پوری فیملی کو بکھیر کر رکھ دیا کیونکہ اس کے تین افراد بیک وقت شہید ہوگئے جن میں ایک والدہ اور اس کے دو کمسن بچے شامل بتائے گئے ۔جن گھرانوں کے عزیز اس سانحہ میں شہادت کا درجہ پاگئے ان کے لواحقین اب بھی زارو قطار رو رہے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ ان کے عزیز اس طرح جام شہادت نوش کرسکتے ہیں ۔ ضلع انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ متاثرین یعنی لواحقین کو امداد دلانے کیلئے اقدامات کرے ۔