نہ صرف شہر سرینگر بلکہ وادی بھر میں کتوں نے عام لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے کیونکہ کتوں کی آبادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اگر ان پر فوری طور قابو نہیں پایا جاے گا تواگلے چند برسوں میں یہ انسانوں سے بھی زیادہ ہونگے ۔کئی دہائیوں قبل تک جب کتوں کی آبادی بڑھنے لگتی تھی تو ان پر قابو پانے کے لئے میونسپلٹی کی طرف سے ان کو زہر دیا جاتاتھا لیکن بعد میں عدالتی احکامات کے تحت اس سلسلے کو بند کردیا گیا ۔جس کے بعد ماہرین نے ان کی بڑھتی ہوئی آبادی پر قابو پانے کے لئے ان کی نسبندی کی تجویز پیش کی جسے متعلقہ حکام نے قابل قبول قرار دے کر ابتدائی نوعیت کی کاروائی شروع کی ۔کئی برس قبل اس مقصد کے لئے برزہامہ میں ایک خصوصی مرکز قایم کیا گیا جہاں شہر کے مختلف علاقوں سے کتوں کو پکڑ پکڑ کر لانے کے بعد ان کی نسبندی کی جاتی تھی اور انہیں واپس اسی جگہ چھوڑ دیا جاتا تھا جہاں سے ان کو اٹھایا گیا ہو۔جن کتوں کو نسبندی کرنے کے بعد چھوڑ دیا جاتاتھا ان پر عارضی رنگ چھڑک دیا جاتاتھاتاکہ اسے دوسری دفعہ پکڑا نہ جاسکے ۔غالباً یہ سلسلہ مہینہ دو مہینے چلنے کے بعد اس پر ایسی بریک لگ گئی جو اب بھی قایم ہے ۔اس کے بعد جب کتوں کی آبادی مزید بڑھنے لگی تو میونسپل حکام نے بتایا کہ اب شہر کے ایک بالائی مضافاتی علاقے میں مستقل طور پر ایک مرکز قایم کیا گیا جہاں اب کتوں کی نسبندی کا کام ہنگامی بنیادوں پر کیا جاے گا لیکن اس میں کوئی حقیقت نہیں کیونکہ ایسا لگتاہے کہ جس رفتار سے کتوں کی آبادی بڑھ رہی ہے نسبندی مرکز کا قیام عمل میں نہیں لایا ہوگا۔شہر کے مختلف علاقوں سے جو اطلاعات موصول ہورہی ہیں ان کے مطابق بچوں ،خواتین اور بزرگوں کا صبح و شام گھروں سے باہر نکلنا آوارہ کتوں نے ناممکن بنادیا ہے ۔کل ہی اخبارات میں یہ خبر شایع ہوئی ہے کہ کپوارہ کی ایک بستی میں کتوں نے ایک درجن سے زیادہ افراد کو کاٹ کھایا جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد تو ٹھیک ہے لیکن متعلقہ حکام کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لئے متبادل انتظامات سے کیوں احتراز کرتے ہیں ۔نسبندی سے ہوسکتاہے کہ کتوں کی آبادی پر روک لگ جاے اور اگر یہ سلسلہ اچھی طرح سے جاری رکھا جاے گا تو کتوں کی بڑھتی ہوئی آبادی پر روک لگائی جاسکتی ہے ورنہ جیسا کہ پہلے ہی کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد دوچار برسوں کے بعد انسانوں سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔یہ ایک انسانی مسلہ ہے جسے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔میونسپلٹی کی یہ ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس پریشانی سے نجات دلائیںلیکن ایسا لگتاہے کہ وہ خواب خرگوش میں ہیں کیونکہ اگر یہ کام فرض شناسی اور سنجیدگی سے شروع کیا جاتاتو لوگوں کو اس دایمی پریشانی سے نجات مل جاتی جس کا ان کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔عوامی حلقوں کی طرف سے بار بار میونسپل حکام سے اپیل کی گئی کہ وہ اس معاملے میں فوری کاروائی کریں لیکن عملی طور پر آوارہ کتوں کے عذاب سے عام لوگوں کو نجات دلانے کے لئے کوئی قابل ذکرکام نہیںکیا جارہا ہے ۔