اس وقت وادی کے واحد میٹرنٹی طبی ادارے یعنی لل دید ہسپتال پر کافی بوجھ ہے کیونکہ وادی کے کسی بھی علاقے میں اس نوعیت کا کوئی بھی بڑا طبی ادارہ نہیں جسے صحیح معنوں میں زنانہ ہسپتال کہا جاسکتا ہے ۔صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ سے منسلک زنانہ ہسپتال ہے جہاں صرف چند بیڈ ہیں جبکہ رعناواری کے علاوہ ضلع صدر مقامات پر بھی زنانہ ہسپتال ہیں لیکن ان میں لل دید ہسپتال کے مقابلے میں کافی کم گنجایش ہے اس طرح اگر وادی کے کسی دور دراز علاقے حتیٰ کہ بانہال میں بھی کوئی حاملہ خاتون ہوگی اور اسے کوئی پیچیدگی پیش آتی ہے تو وہاں بھی ڈاکٹر اسے لل دید ہسپتال ہی ریفر کرتے ہیں ۔اس طرح اس ہسپتال پر اس قدر بوجھ ہے کہ ڈاکٹر بھی پریشان ،نیم طبی عملہ بھی مشکلات میں مبتلا جبکہ ہسپتال ایڈمنسٹریشن کو بھی بار بار مسایل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔سب ملازمین بشمول ڈاکٹر صاحبان وغیرہ اگرچہ تندہی سے اپنے فرایض انجام دیتے ہیں لیکن جب بیماروں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے تو مسایل کا پیدا ہونا لازمی ہے ۔اب بمنہ میں زیر تعلیم زچہ بچہ ہسپتال سے کافی امیدیں بندھ گئی تھیں کہ وہ تیار ہوگا تو لل دید پر بوجھ کم ہوجاے گا لیکن شاید اگلے کئی برسوں میں بھی اس پر کام مکمل نہیں ہوگا ۔ایک مقامی اخبار نے بھی اس بارے میں ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں بتایا گیا کہ سال 2012میں اس پر کام شروع ہوا ہے اور اب تک اس ہسپتال کی تعمیر کا کام مکمل نہیں ہوا ہے جوباعث تعجب ہے ۔پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ یہ ہسپتال دو سو بستروں والا ہوگا لیکن جب مفتی محمد سعید وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے اسے پانچ سو بستروں والا بنانے کا اعلان کیا ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اب نہ یہ دوسو بستروں والا بن رہا ہے اور نہ ہی پانچ سو بستروں والا تعمیر ہورہا ہے ۔طبی اداروں کی تعمیر تو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نہ جانے کیوں اس جانب غفلت شعاری برتی جارہی ہے ۔اخبار کے مطابق اس کی تعمیر کا کام اب آر اینڈ بی کے ذمہ ہے لیکن یہ محکمہ بھی تعمیر کے کام میں تیز رفتاری کا مظاہرہ نہیں کررہا ہے ۔بتایاجارہا ہے کہ اب تک دو ڈیڈلائینیں گذر چکی ہیں لیکن ابھی تک اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوچکی ہے ۔لل دید ہسپتال میں تعینا ت ایک معروف ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر بمنہ کے زچہ بچہ ہسپتال کا کام مکمل ہوتا اور اسے چالو کیاجاتا تو لل دید ہسپتال پر تیس سے چالیس فی صد بوجھ کم ہوجاتا ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہورہا ہے کہ اس پر کب کام مکمل ہوگا۔وادی میں پیشنٹ کئیر کا خدا ہی حافظ ہے ۔اس کی یہ وجہ نہیں کہ ہمارے ڈاکٹر ناقابل ہیں یا نیم طبی عملہ اپنے کام سے ناواقف ہے بلکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان پر کام کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے جس کی بنا پر ان کو بھی اپنے فرایض کی انجام دہی میں مسایل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلئے لل دید اور دوسرے ہسپتالوں پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے مزید ہسپتالوں کی تعمیر ناگزیر بن گئی ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ بمنہ کے زچہ بچہ ہسپتال کی تعمیر میں سرعت لائی جاے اور اسی طرز کا دوسرا ہسپتال بھی جنوبی کشمیر میں کسی بھی مقام پر تعمیر کیاجاے ۔جب کبھی بمنہ کے زچہ بچہ ہسپتال پر کام مکمل ہوگا اور یہ بن کر تیار ہوجاے گا تو شمالی کشمیر کے مریضوں کیلئے یہ ہسپتال نزدیک بھی ہوگا جہاں خواتین کو علاج معالجے اور زچگی سے جڑے معاملات کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی وہاں بچوں کا بھی ہسپتال تعمیر ہورہا ہے اور اس کی تعمیر مکمل ہونے سے جے بی پنت بچہ ہسپتال پر بھی بوجھ کم ہوگا۔