کولگام ضلع کے ترک تاچھلو نامی گاﺅں میں ہپٹایٹس اے پھیلنے سے لوگوںمیں فکر و تشویش کا اظہار کیا جانے لگا ہے ۔لوگ پریشان ہیں اور متعلقہ محکمے پر اس حوالے سے غفلت برتنے کا الزام عاید کیاجارہا ہے ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے بچے مررہے ہیں اور متعلقہ حکام کہتے ہیں کہ فکر وتشویش ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ترک تاچھلو میں کچھ عرصہ قبل ہیپاٹا ئٹس اے پھیلنے سے دو بچے از جان ہوئے ہیں جبکہ بہت سے اس بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں جن میں سے چھ کی حالت نازک بتائی گئی ہے ۔ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی دو ٹیمیں قصبے میں خیمہ زن ہیں ۔اس وبائی بیماری میں مبتلا ہونے والے دو بچے اب تک از جاں ہوئے ہیں جبکہ دیگر چھ کی حالت انتہائی نازک بتائی گئی ۔اس بیماری کے پھیلنے کی اطلاع ملتے ہی ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی دو ٹیمیںقصبے میں خیمہ زن ہیں اور ڈاکٹر اس صورت حال پر قابو پانے کے لئے کوششوں میں مصروف ہیں ۔اس دوران کئی افسروں نے بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور گاﺅں والوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ اس بیماری پر بہت جلد قابو پایا جاسکتا ہے ۔ڈائیریکٹر ہیلتھ نے گاوں کے دورے کے دوران کہا کہ لوگوں کو گھبرانے کی ضرورت نہین محکمہ اس پر قابو پانے کے لئے اقدامات کررہا ہے ۔ڈائیریکٹر ہیلتھ کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا سد باب کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میڈیکل ٹیمیں علاقے میں موجود ہیں اور اب تک 90سے زیادہ بچوں کے سیمپل حاصل کئے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہر ایک کا سیمپل حاصل نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ صرف اسی بچے کا سیمپل حاصل کیا جارہا ہے جس کے گھر میں کوئی نہ کوئی اس بیماری سے متاثر ہوا ہو۔اس علاقے میں لوگوں کو ہیپٹائیٹس اے بی اور سی کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے ۔ اخباری بیان میں ناظم صحت نے بتایا کہ یہ بیماری ناصاف پانی کے استعمال سے پھیلتی ہے ۔اسلئے جل شکتی محکمے کو آگاہ کیا گیا ہے ناظم صحت کی طرف سے دئے گئے اس بیان پر مقامی لوگوں نے زبردست ردعمل ظاہر کرتے ہوے کہا کہ علاقے میں بہت سارے لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں اور دو بچے اب تک از جان ہوئے ہیں بقول ان کے افسرلوگ آتے ہیں جاتے ہیں اور بیان دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں جبکہ بقول ان کے کوئی عمل اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے ۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ کہ زمینی سطح پر اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے کے لئے کسی بھی طرح کی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے ۔اگر مقامی لوگ سچ کہتے ہیں کہ اس بیماری پر قابو پانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اُٹھایا جارہا ہے تو متعلقہ ضلع حکام کو اس جانب توجہ دینی چاہئے کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔اب جبکہ ناظم صحت کہتے ہیں کہ ناصاف پانی کے استعمال سے یہ بیماری پھیل رہی ہے تو معاملہ واٹر ریزر وئیر میں صرف کلورین ٹکیا ڈالنے سے ختم نہیں ہوگا بلکہ یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا اس ریزروئیر کی باقاعدگی سے صفائی ستھرائی کی جارہی ہے یا نہیں ۔جس ندی نالے سے ریزروئیر میں پانی جمع کیا جاتا ہے اس پانی کی حالت کیا ہے کیا اس کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے یا نہیں اور کیا وہ انسانوں کے استعمال کے قابل ہے یا نہیں ۔اس حوالے سے محکمہ جل شکتی کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتاہے ۔