سرینگر کے ڈپٹی کمشنر نے محکمہ ہیلتھ کے افسروں اور ملازمین کو ہدایت دی کہ سرینگر ضلع میں تیس برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی صحت جانچ کی جاے تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ کتنی فیصد آبادی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہے جو لاگ دار نہیں ہیں۔جن میں ہائی بلڈ پریشر ،شوگر اور کینسر وغیرہ شامل ہیں۔تمام زونل ہیلتھ افسروں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس بارے میں 4دسمبر تک اپنا ہدف پورا کریں ۔ضلع انتظامیہ کا یہ اقدام اگرچہ ایک جانب قابل سراہنا ہے کیونکہ 30برس سے زیادہ عمر کے لوگ ان میں سے کسی نہ کسی بیماری مین مبتلا ہوجاتے ہیں جیسا کہ اس سے قبل جو اعداد وشمار وقتاًفوقتاً منظر عام پر لائے گئے ان میں ایسے لوگوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے جو متذکرہ بالا بیماریوں میں مبتلا ہیں اب ڈپٹی کمشنر نے محکمہ ہیلتھ کے افسروں کو اس حوالے سے جو ہدایات دی ہیںان کو مد نظر رکھ کر محکمے کے اہلکاروں کو سروے کرکے متاثرہ لوگوں کے بارے میں اعداد وشمار اکٹھے کرکے انہیں ڈپٹی کمشنر کو پیش کرنا ہے ہوسکتا ہے کہ ہیلتھ اہلکار اس کام میں لگے ہونگے لیکن ضلع سرینگر میں رہنے والے لوگوں کو ابھی تک اس بارے مین کوئی علمیت نہیں اسلئے ڈپٹی کمشنر نے اس کے لئے 4دسمبر کی جو ڈیڈ لائین مقرر کی ہے اس میں توسیع کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس دائیرے میں لایا جاسکے ۔معلوم نہیں لوگ اب تیزی سے کس بنا پرمختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔اسلئے انہیں سرکاری طور پر اگر طبی سہولیات فراہم کی جاینگی تو اس سے بہتر قدم اور مناسب طریقہ کار اور کیا ہوسکتا ہے ۔لوگ ان بیماریوں کا علاج کرنے کے لئے پرائیویٹ کلنکوں پر جاتے ہیںجہاں انہیں حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔مثلاً ڈاکٹری فیس ،ٹیسٹوں کی فیس ،ادویات اور دوسرے خرچے یعنی کل ملا کر ایک بار ڈاکٹر سے صلاح مشورے کے لئے مریض کو دو سے تین ہزار روپے تک کی رقم صرف کرنا پڑتی ہے ۔اگر حکومت ایسے مریضوں کو از خود علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرے گی تو اس سے متاثرہ لوگوں کو کس قدر راحت ملے گی اس کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتاہے ۔آج کل پرائیویٹ کلنک پر ڈاکٹر پانچ سو روپے سے کم فیس نہیں لیتے ہیںجبکہ ٹیسٹوں اور ادویات پر بھی بھاری رقومات خرچ ہوتی ہیں اسلئے ان اخراجات سے نجات دلانے کے لئے سرکار کاہر قدم متاثرین کے لئے راحت بن سکتا ہے اس لئے اس مین جتنی جلدی ہوسکے کی جانی چاہئے ۔کشمیر میں بیماریاں عام ہورہی ہیں اور ایک حالیہ سروے کے مطابق کشمیر میں جتنی ادویات خرچ ہوتی ہیں اتنی کسی بھی ریاست میں نہیں ہوتی ہیں اسلئے لوگوں کو راحت دلانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے اور ڈپٹی کمشنر سرینگر نے جو قدم اٹھایا ہے وہ قابل سراہنا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاے ۔