ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس وقت جو مختلف بیماریاں لوگوں کو گھیر رہی ہیں اور جن کے بارے میں لوگ حیران و پریشان ہیں ان بیماریوں میں سے اسی فی صد بیماریاں ملاوٹ کی پیداوار ہیں یعنی لوگ جو اشیاءکھاتے ہیں وہ ملاوٹی ہوتی ہیں اور یہی وجہ سے روز نئی نئی بیماریاں لوگوں کو گھیر لیتی ہیں ۔لوگ بھی پریشان اور ڈاکٹر بھی حیران کہ یہ بیماریاں کس نوعیت کی ہیں اور کہاں سے ان بیماریوں نے جنم لیا ہے؟ ۔لیکن ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ غذائی اجناس میں ملاوٹ کی وجہ سے ایسی بیماریاں پیدا ہونے لگی ہیں جن کا پہلے تصور تک نہیں کیا جاسکتاتھا ۔ہر عمر کے لوگوں کے لئے دودھ ایک بنیادی اور اہم غذا ہے جو انسانی نشوونما کے لئے نہایت ہی ضروری ہے ۔شیر خوار بچے سے لے کر عمر رسیدہ شخص تک کے لئے دودھ انتہائی ضروری ہے لیکن افسوس اس میں بھی ملاوٹ کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ایسی اشیاءکی ملاوٹ کی جارہی ہے جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ثابت ہورہی ہے ۔کل ہی اس حوالے سے میڈیا میں یہ خبر گشت کرنے لگی ہے کہ حکومت مہاراشٹر نے اسمبلی میں اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاے گی ۔اسمبلی اراکین کی طرف سے دودھ میں ملاوٹ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ اجیت پوار نے کہا کہ دودھ میں ملاوٹ ایک سنگین معاملہ ہے اور اسے روکنے کے لئے حکومت مہاراشٹر نے پہلے ہی سزائے موت دینے کا قانون بنایا تھا ۔یہ قانون صدر ہند کو منظوری کے لئے بھیج دیا گیا ہے ۔ایوان اسمبلی میں بتایا گیا کہ بنیادی طور پر اگر دودھ میں ملاوٹ ختم ہوگی تو بچوں سے لے کر بڑوں تک کی صحت برقرار رہ سکتی ہے ۔حکومت مہاراشٹر کی طرف سے اس طرح کا اقدام دیگر ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لئے ایک مثال بن سکتاہے اور اگر مہاراشٹر میں یہ قانون بنتاہے اور صدر ہند اس کی توثیق کرتی ہے تودوسری ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے لئے اسے اپنانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہئے ۔اس کے بعد کہا جارہا ہے کہ بعض مصالحہ جات بنانے والی کمپنیوں کے پروڈکٹس میں بھی ملاوٹ کی جاتی ہے اور لوگ ان مصالحہ جات کو شوق سے استعمال کرتے ہیں ۔ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ وہ خود ہی زہر کھاتے ہیں ۔اکثر اوقات میڈیا میں اس قسم کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں کہ کئی مخصوص ادویات میں ملاوٹ کی جاتی ہے ۔اگر کسی دوائی میں شامل مختلف اجزا میں کمی بیشی کی جاتی ہے تو یہ بھی ایک قسم کی ملاوٹ ہی ہوتی ہے ۔اسی طرح مختلف قسم کے مشروبات کے بارے میں بھی اسی طرح کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ ان میں بڑے پیمانے پر ملاوٹ کی جاتی ہے ۔لوگ جان بوجھ کر ملاوٹی اشیاءتو استعمال نہیں کرینگے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہاں ایک بھی ایسی غذائی اشیاءنہیں جس میں ملاوٹ نہ کی جاتی ہو۔اسلئے متعلقہ محکمے کو سرگرمی کے ساتھ اس وبا کو روکنے کے لئے متحرک ہونا چاہئے ۔لوگوں پر بھی اس حوالے سے ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں کہ وہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ اس بارے میں مکمل تعاون پیش کریں تاکہ ملاوٹ کرنے کے دھندے میں ملوث افراد کو کڑی سے کڑی سزا دی جاسکے ۔