جموں کشمیر میں خواتین کے خلاف جرایم کا گراف جس تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے وہ کشمیری عوام کے لئے باعث تشویش ہے ۔یہ بات سُنی سنائی نہیں بلکہ نیشنل کرایم ریکارڈ بیورو نے حال ہی میں خواتین کے بارے میں جو سالانہ رپورٹ منظر عام پر لائی ہے اس میں انکشاف کیا گیا کہ جموں کشمیر میں سال 2021کے دوران خواتین کے خلاف جرایم کا گراف بڑھ گیا ہے اور اس میں 9فی صد کا اضافہ ہوا ہے ۔این سی آر بی کی یہ رپورٹ واقعی چونکانے والی ہے کیونکہ یہاں لوگ خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں بھر پور عزت و آبرو کا مقام دینے کی باتیں کرتے ہیں خواتین کے بارے میں لمبی لمبی تقریریں جھاڑتے ہیں لیکن نیشنل کرایم ریکارڈ بیوروکی رپورٹ جب منظر عام پر آئی تو ذی حس لوگوں کے رونگٹھے کھڑے ہوگئے ۔کشمیری سماج میں جرایم کی رفتار انتہائی کم ہوتی تھی اور جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو خواتین کے خلاف جرایم کے ارتکاب کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ زمانے کی ہوا بدل گئی غالباً لوگوں کو لالچ ،خود غرضی انا پرستی اور اسی قسم کی دوسری چیزوں نے بری طرح جکڑ لیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین بھی اس کی زد میں آگئیں اور مرد حضرات اب خواتین کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے لگے ہیں ۔حال ہی میں اخبارات میں اس قسم کی خبریں شایع ہوئی تھیں جن میں خواتین کو مبینہ طور سسرال والوں نے تشدد کا نشانہ بناکر ابدی نیند سلادیا ۔اگرچہ پولیس نے کیس بھی رجسٹر کرلیا اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائیں لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا تھا ۔یعنی خواتیں کے خلاف جرم کا ارتکاب ہوچکا تھا ایسے مردوں یا دوسرے افراد کے خلاف سخت سے سخت قانونی کاروائی ہونی چاہئے جو اس طرح کی حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہونگے ۔دین اسلام کے علاوہ ہر مذہب مین خواتین کو اعلی درجہ دیا گیا ہے ۔عورت ماں بھی اور بیٹی بہن بھی ہوتی ہے بیوی بن کر شریک حیات کا موثر رول ادا کرکے اپنے شوہر کو صحیح راستہ طے کرنے میں مدد دیتی ہے امور خانہ داری نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ سماج میں اچھے شہری بن سکیں اور ملک و قوم کے علاوہ اپنے خاندان کا نام روشن کرسکیں اسی خاتوں کے خلاف جرایم کا گراف بڑھ گیا ہے یہ شرم کی بات ہے یہ افسوس کا مقام ہے ۔سماج کے حساس طبقے کو سر جوڑ کر اس ساری صورتحال پر غور کرکے اس کا تدارک کرنے کے بارے مین طریقہ کار اور لائیحہ عمل تلاش کرنے کے لئے کوششیں کرنی چاہئے ۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ کشمیری سماج اس قدر شرافت کی زندگی گذارتا تھا کہ اگر کسی گھرانے میں مرغ پکایا جاتا تو چار پانچ ہمسائیوں کے پاس جاکر مرغ ذبخ کرنے کے لئے چاقو مانگ کر لانا پڑتا تھا ۔اور جب کوئی کنبہ مرغ پکاتا تھا تو محلے والے مل بیٹھ کر اسے کھاتے تھے ۔یہ خلوص تھا ایک دوسرے کے ساتھ محبت ،عزت اور دوستی کا معراج تھا لیکن اب گھروں میںپیسہ آیاتو ضرور لیکن اگر ہمسایے کو کسی وجہ سے نوبت فاقے تک جاپہنچے گی تودوسرے ہمسائے کو پتہ ہی نہیں چلتا ہے ۔لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے ۔محبت ،رغبت اور خلوص نیت نہیں رہا ۔لیکن اگر ہم اپنے روے میں تبدیلی نہیں لائینگے خواتین کی عزت نہیں کرینگے ۔جرایم پرجرایم کے مرتکب ہونگے تو وہ دن دور نہیں جب ہمار ا نام صفحہ ہستی سے مٹ جاے گا۔