کالعدم عسکری تنظیموں کو مسلح گروپ قرار دینا انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے دفتر کی سطح پر متعصبانہ رویے کی واضح عکاسی کرتا ہے
خرم پرویز کی گرفتاری اور کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بھارت نے کہا ہے کہ بیان کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے انہیں انسانی حقوق پر شدت پسندی کے اثرات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا مشورہ دیا۔مانیٹرنگ کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم عسکری تنظیموں کو مسلح گروپ قرار دینا انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے دفتر کی سطح پر متعصبانہ رویے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمیشن ( او ایچ سی ایچ آر)کے دفتر کی جانب سے جموں و کشمیر پر دیے گئے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بیان کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے انہیں انسانی حقوق پر شدت پسندی کے اثرات کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا مشورہ دیا۔وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے میڈیا کے سوالات پر حیرت کا اظہار کیا کہ ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کا دفتر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کالعدم عسکری تنظیموں کی تعریف کر رہا ہے۔باگچی نے کہا کہ ہم نے جموں و کشمیر میں کچھ خاص واقعات کے بارے میں انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے دفتر کے ترجمان کا بیان دیکھا ہے۔ یہ بیان بھارتی سکیورٹی فورسز اور پولیس پر بے بنیاد الزامات سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بیان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی کمیشن برائے انسانی حقوق کے دفتر میں ہندوستان کے ذریعہ جھیلی جارہی سرحد پارسے شدت پسندی اور جموں و کشمیر سمیت ہمارے تمام شہریوں کے جینے کے حق جیسے انسانی حقوق پر شدت پسندی کے اثرات کے بارے میں پر مکمل ادراک کی کمی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے کالعدم عسکری تنظیموں کو مسلح گروپ قرار دینا انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے دفتر کی سطح پر متعصبانہ رویے کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ترجمان نے کہا کہ ایک جمہوری ملک کے طور پر اور اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ و سلامتی کے لیے پرعزم ہے، ہندوستان سرحد پار عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہا ہے۔ بھارت کی خودمختاری اور ہمارے شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے قومی سلامتی کے قوانین جیسے کہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا ایکٹ 1967 پارلیمنٹ نے نافذ کیا ہے۔باگچی نے کہا کہ بیان میں جن افراد کا ذکر کیا گیا ہے ان کی گرفتاری اور تحویل کو قانون کی دفعات کے مطابق سختی سے نافذ کیا گیا ہے۔ حکومت ہند قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کرتی ہے نہ کہ حقوق کے قانونی استعمال پر کارروائی کرتی ہے۔ ایسی کارروائیاں قانون کے مطابق ہوتی ہیں۔ترجمان نے کہا” ہم انسانی حقوق کے ہائی کمیشن کے دفتر پر زور دیتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق پر شدت پسندی کے منفی اثرات کے بارے میں بہتر تفہیم پیدا کرے“۔واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے انسانی حقوق ( او ایچ ایس ایچ آر) کے دفتر نے بدھ کے روز ایک بیان جاری کرتے ہوئے ©©©©”کشمیری انسانی حقوق کے کارکن خرم پرویز کی یو اے پی اے کے تحت گرفتاری پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے“۔