وادی میں شعبہ صحت عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا ہے کیونکہ صرف ڈاکٹروں کی موجودگی سے ہی بیمار صحت یاب نہیں ہوسکتے ہیںبلکہ اس کے لئے مکمل ڈھانچے کی ضرورت ہوتی ہے یعنی نیم طبی عملہ ،مناسب اور جدید ساز و سامان ،سائینسی آلات ،جدید طرز کی عمارت جس میں سب سہولیات میسر ہوں کا ہونا بھی ضروری ہے ۔لیکن افسوس یہاں کا نظام اس حد تک بگڑا ہوا ہے کہ شعبہ صحت کو نظر انداز کیا جارہا ہے یا اس کے لئے لوازمات کو پورا کرنے میں غفلت شعاری کا مظاہرہ کیاجارہا ہے ۔ اگر کسی دوسرے شعبے میں ایسا کیا جاتا تو اس سے انسانی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن یہاں سوال انسانی جانوں کا ہے جس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔گذشتہ دنوں وادی کا واحد ہڈیوں اور جوڑوں کا ہسپتال آگ کی واردات میں خاکستر ہوا ہے ۔لیکن ابھی تک اس کے متبادل کا انتظام نہیں کیاجاسکا ہے ۔ایمرجنسی شعبہ ابھی تک ٹھپ ہے صرف عارضی طور پر اوپی ڈی کا انتظام کیا گیا ہے ۔ایک مقامی اخبار نے انکشاف کیا ہے کہ سال 2014کے سیلاب کے بعد عالمی بینک نے ہسپتال کی پرانی عمارت کو غیر محفوظ قرار دیا تھا اور جہلم توی فلڈ ریکوری پروجیکٹ کے تحت 120بستروں پر مشتمل ہسپتال کی نئی عمارت کے لئے رقومات بھی واگذار کئے لیکن ہسپتال ابھی تک تعمیر نہیں کیا جاسکا ہے اور ہسپتال کی عمارت تعمیر کرنے والی کمپنی ڈیڈ لائین دینے کے باوجود ابھی تک اس کی تعمیر مکمل نہیں کرسکی ہے حالانکہ ورلڈ بنک نے اس کے لئے 38کروڑ کی خطیر رقم واگذار کرلی ہے ۔اس بلڈنگ پر سال 2019جولائی میں کام شروع کیا گیا لیکن سست رفتاری کے باعث ابھی تک اس کی تعمیر مکمل نہیں ہوسکی ہے ۔اب کہا جارہا ہے کہ دسمبر میں اس کی تعمیر مکمل ہوگی ۔لیکن ابھی تک اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔جب ہم باہر کے ملکوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں شعبہ صحت کو ہر معاملے مین ترجیح دی جارہی ہے اگر ہسپتال کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوچکی ہوتی تو گذشتہ ایام میں آتشزدگی کے نتیجے میں جو حال بیماروں کا ہوا ہے وہ نہیں ہوتا اور ہسپتال کا پورا نظام برقرار رہتا ۔بہر حال اسی طرح بمنہ میں جو زنانہ ہسپتال تعمیر کیا جارہا ہے اس میں بھی تیزی نہیں لائی جارہی ہے جب اس کی حد سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ پوری وادی بلکہ بانہال سے بھی حاملہ خواتین کو لل دید ہسپتال ریفر کیاجاتا ہے ۔نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اس ہسپتال پر حد سے زیادہ بوجھ ہے اور اگر بمنہ کا زنانہ ہسپتال تیار ہوجاتا تو اس ہسپتال پر بوجھ کم ہوجاتا اور ڈاکٹر وں اور نیم طبی عملے کو بھی راحت ملتی کیونکہ انہیں لل دید ہسپتال میں زیادہ مریضوں کی وجہ سے کافی بوجھ پڑ جاتا ہے متعدد مرتبہ حکام کی توجہ اس جانب مبذول کروائی گئی تھی کہ ضلع ہسپتالوں میں اس قدر جدید سہولیات میسر رکھی جائیںتاکہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ ،صدر ہسپتال اور لل دید ہسپتال پر بوجھ نہ پڑ سکے کیونکہ ان تینوں ہسپتالوں پر اضلاع سے ہی مریضوں کو ریفر کیا جاتا ہے اگر ضلع سطح پر صحت شعبے کو جدید طرز پر استوار کیاجاتا یعنی سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے علاوہ لازمی ساز و سامان وغیرہ نصب کیاجاتا تو ہمارے سب سے بڑے تین ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوجاتا ۔اسلئے صحت شعبے کے لئے بھر پور بجٹ مختص رکھا جانا چاہئے تاکہ مریضوں کو راحت مل سکے ۔