سال 2022-23کا بجٹ یکم فروری کو مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کیا جارہا ہے اور اس بجٹ کے ساتھ ہر طبقے کو کافی امیدیں و ابستہ ہیں کیونکہ کووڈ نے نہ صرف پورے مالی نظام کو متاثر کردیا بلکہ ہر شعبے میں اس کی وجہ سے تنزلی ہوئی ۔ان میں سے ایک شعبہ جو خاص طور پر قابل ذکر ہے اور وہ ہے شعبہ تعلیم جو کووڈ سے متاثر ہونے والوں میں سب سے بڑا شعبہ ہے اور اگر اس کی وقت پر بھر پائی نہیں ہوگی تو بھارت تعلیم کے میدان میں کافی پیچھے رہے گا۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیم میں ٹیکس ریلیف اور ڈیجیٹل انفراسٹراکچر پر چونکہ بقول ان کے بھر پور توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں کافی مایوسی پھیلی ہوئی ہے ۔کیا مرکزی حکومت آیندہ بجٹ میں شعبہ تعلیم کے لئے مختص رقم میں اضافہ کرے گی اس کا انتظار کرنا ہوگا ۔قومی تعلیمی پالیسی کا گذشتہ برس اعلان کیا گیا تھا اور اس کو بجٹ میں مزید تقویت دی گئی تھی جس میں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت پندرہ ہزار سے زیادہ سکولوں کو قابلیت کے لحاظ سے مضبوط کیا گیا تھا تاکہ وہ مثالی سکول بن سکیں جو اس کے بعد دوسرے سکولوں کی رہنمائی کرسکتے ہیں یہ قدم ایڈ ٹیک کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے ان سکولوں میں ای لرننگ اور بلینڈڈ لرننگ کو ادارہ جاتی شکل دے کر اکیسویں صدی کے نئے دور کے تعلیمی نظام کی بنیاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے تعلیمی شعبے کی وسیع پیمانے پرڈیجٹلائیزیشن کو مزید قابل بنایا جاے گا۔بھارت کے ایک ممتاز ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ تعلیم کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی اپ گریڈیشن ،تحقیقی سہولیات ،فزیکل انفراسٹکچر اور اثاثوں کی دیکھ بھال کے لئے بڑے بجٹ کی ضرورت ہے کیونکہ بقول ان کے اب حصول تعلیم کے لئے قلم دوات اور چاک پنسل کا زمانہ نہیں رہا اسلئے اسی لحاظ سے گذشتہ برسوں کے مقابلے میں بجٹ میں بڑے پیمانے پر تعلیمی شعبے کے لئے رقومات مختص رکھنے کی ضرورت ہے ۔کورونا بحران کے دوران تعلیمی اداروں کے مسلسل مہینوں تک بند رہنے سے خاص طور پر پسماندہ خاندانوں کے طلبہ اور طالبات کا فی متاثر ہوئے حکومت کو ان متاثرہ بچوں کو تعلیمی نظام میں واپس لانے کے لئے آگے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی وہ منصوبہ بندی کیسے ہوگی؟ اس کے لئے بھاری رقومات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔قومی تعلیمی پالیسی این ای پی 2020نے تعلیمی اصلاحات کے ساتھ وابستگی کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور تعلیم پر عوامی سرمایہ کاری کو ڈی جی پی کے چھ فی صد تک بڑھانے کی سفارش کی توثیق کی ہے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اب کی بار مرکز کو تعلیمی بجٹ کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ کوووڈ نے پورے تعلیمی نظام کو منتشر کرکے رکھ دیا ہے یہ مسلہ بھارت میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کی حکومتوں کو درپیش ہے اور کئی ایک حکومتوں نے تعلیمی شعبے کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانے کے لئے اچھی خاصی رقومات پہلے ہی مختص کر رکھی ہیں اسی طرح بھارت کو بھی شعبہ تعلیم کو بڑھاوا دینے کے لئے بھاری رقم مختص رکھنے کا بجٹ میں اعلان کرنا چاہئے ۔