محکمہ وایلڈ لایف کے خلاف اوڑی میں اس وقت زبردست مظاہرے کئے گئے جب ایک تیندوے نے ایک معصوم بچے کو اپنا نوالہ بنایا ۔اس سلسلے میں جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کے مطابق تیندوا مقامی بستی میں گھس گیا اور اپنے گھر کے باہر کھیل رہے بچے پر جھپٹ پڑا اور اسے گھسٹتا ہوا جنگل کی طرف بھاگ گیا مقامی لوگوں نے جب بچے کی چیخیں سنیں تو تیندوے کا پیچھا کیا گیا جس نے بچے کو خون میں لت پت چھوڑا ۔اس طرح ایک اور بچہ موت کے منہ میں چلاگیا ۔یہ ایک سانحہ ہے ۔کیونکہ جس گھرانے کا یہ چشم و چراغ تھا ان پر کیا بیتی ہوگی ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ محکمے کی طرف سے انسانی بستیوں میں جنگلی درندوں کی آمد کا سلسلہ بند کرنے کے لئے کوئی ٹھوس کاروائی نہیں کی جارہی ہے ۔قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بڈگام کے ایک گاﺅں میں خونخوار تیندوا اچانک اس بستی میں گھس گیا جہاں ایک معصوم بچی گھر کے باہر کھیل رہی تھی چنانچہ تیندوا اس پر جھپٹ پڑا اور اسے لہولہان کرکے چھوڑ دیا ۔ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے وہ بچی بھی دم توڑ بیٹھی۔اس کے بعد اسی ضلع میں ایک اور معصوم بچہ تیندوے کا شکار بن گیا ۔غرض گذشتہ دو ماہ میں تقریباً نصف درجن بچے خوانخوار تیندوں کا شکار بن گئے ۔ایک تیندوے کو ضلع حکام نے آدم خور قرار دیا جس کے بعد اسے گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔لوگوں نے اس وقت بھی محکمہ وایلڈ لایف کے خلاف احتجاج کیا تھا لیکن تیندوے یا ریچھ آرام سے جنگلوں سے نکل کر انسانی بستیوں میں داخل ہوکر لوگوں کے لئے دایمی مصیبت بنتے جارہے ہیں ۔ایک دو ماہ قبل شہر کے مختلف علاقوں میں تیندﺅں کو گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا ۔عوامی حلقوں کی طرف سے محکمہ وایلڈ لایف کو ہدف تنقید بناتے ہوے کہا جارہا ہے کہ جنگلی درندوں کی طرف سے انسانی بستیوں کا رخ کرنے کے واقعات کی روک تھام کیوں نہیں کی جارہی ہے جبکہ محکمہ جنگلوں کے ارد گرد کانٹے دار تار اگر نصب کرے گا تو جنگلی درندے انسانی بستیون کا رخ نہیں کرسکتے ہیں لیکن اس بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کیا جارہا ہے ۔اگر جنگلوں کے ارد گرد باڑھ لگائی جاتی تو اس سے ٹمبر سمگلنگ کی بھی روک تھام ممکن ہوتی اور جنگلی جانوروں کی طرف سے انسانی بستیوں کی طرف رخ کرنے کے رحجان پر قابو پایا جاسکتاتھالیکن افسوس کا مقام ہے کہ جنگلی درندوں کی طرف سے انسانوں پر حملوں کے واقعات پے در پے رونما ہونے کے باوجود اس کا معمولی سا نوٹس بھی نہیں لیا جارہا ہے ۔عوامی حلقوں میں اس کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔تعجب تو اس بات کا ہے کہ شہر و گام روزانہ کتوں کے کاٹنے کے واقعات رونما ہونے کے باوجود بلدیہ اداروں کی طرف سے بھی کچھ نہیں کیا جارہا ہے ۔ایسا لگتاہے کہ حکام کے سامنے انسانی جانوں کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے ۔عوامی حلقوں کی طرف سے ایل جی سے اپیل کی گئی ہے کہ لوگوں کو بچانے کے لئے محکمہ وایلڈ لایف کوکڑی کاروائی کرنے کی ہدایت دی جاے ۔اس کے ساتھ ہی جس بچے کی جنگلی درندے نے چیر پھاڑ کرکے رکھدی اس بچے کے لواحقین کو ایکس گریشیا ریلیف فراہم کیا جاے ۔