ڈیزاسٹر منیجمینٹ اتھارٹی کی طرف سے حال ہی میں اجرا کی گئی ایڈوائیزری کو کس طرح پاﺅں تلے روندا جارہا ہے اس کی مثال جھیل ڈل اور جہلم کے علاوہ معاون ندی نالوں میں دیکھنے کو مل رہی ہے ۔نہ تو پولیس کا کوئی پہرہ اور نہ ہی کوئی سرکاری کارندہ نظر آرہا ہے ۔قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ ڈیزاسٹر منجیمنٹ اتھارٹی کی طرف سے بڑھتے ہوے درجہ حرارت کو مدنظر رکھتے ہوے ایک ایڈوائیزری جاری کردی گئی جس میں والدین سے کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو جھیل ڈل ،جہلم اور اس کی معاون ندیوں اور نالوں میں نہانے سے باز رکھیں کیونکہ آج کل غرقابی کے واقعات رونما ہونے لگے ہیں کیونکہ جو بچے یا نوجوان ڈل اور جہلم میں نہاتے ہیں وہ بغیر لایف جیکٹس یا دوسری احتیاطی تدابیر کے بغیر ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ بد قسمتی سے ڈوب بھی جاتے ہیں۔قارئین کے لئے ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی طرف سے جاری ایڈوائیزری کے متن کو یہاں دوبارہ شایع کیا جارہا ہے ۔ایڈوائیزری میں عوام اور بالخصوص بچوں کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے اور کہا گیا کہ کھلے آبی ذخائیر میں تیرا کی سے پرہیز کریں ۔جن میں خاص طور پر جہلم اور اس کے معاون ندی نالوں کے علاوہ جھیل ڈل بھی شامل ہے ۔ایڈوائیزری میں کہا گیا کہ تعلیمی اداروں کے سربراہاں کی یہ ایک اضافی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنائیں جنہیں اس طرح کے حادثات کا اکثر و بیشتر سامنا کرنا پڑ تاہے ۔شکارا والوں سے کہا گیا کہ وہ اس طرح کے حادثات کی روک تھام کیلئے جھیل ڈل اور جہلم میں نظر گذر رکھیں ۔تحصیلداروں سے کہا گیا کہ وہ اپنے اپنے دائیرہ اختیار میں پہلے سے قایم زونل کمیٹیوں کو فعال اور حساس بنائیں ۔یہ ایک ایسی ایڈوائیزری ہے جس کی اس وقت سخت ضرورت محسوس کی جارہی ہے اور اس میں والدین کے ساتھ ساتھ سکول سربراہاں ،تحصیلداروں ،زونل کمیٹیوں کے ذمہ داروں ،شکارا والوں وغیرہ سے اپیل کی گئی کہ وہ اس ضمن میں اپنا اپنا رول نبھائیں ۔لیکن افسوس کا مقام ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ابھی اس ایڈوائیزری کو جاری ہوئے دو ہی دن گذرے ہونگے کل یعنی سوموار کو جھیل ڈل میں جگہ جگہ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں کو بھی پانی میں ڈبکیاں لگاتے ہوے دیکھا گیا ۔وہ سر عام جھیل میں تیراکی کرتے رہے اور کسی نے ان کو روکا ٹوکا نہیں ۔یہ کس قدر غفلت شعاری کا معاملہ ہے ۔جہاں سرکار بھی اس کے لئے ذمہ دار ہے وہاں والدین کو بھی اس معاملے میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتاہے ۔جہلم اور اس کے معاون نالوں اور ندیوں میں بھی بچے بڑے وغیرہ دن بھر ڈبکیاں لگاتے ہوے دیکھے گئے ۔اگرچہ اس وقت ناقابل برداشت حد تک گرمیاں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں لوگ اپنی زندگیوں سے کھلواڑ کریں ۔کل ہی صفاکدل میں ایک بچہ ڈوب گیا لیکن ایک مقامی نوجوان نے کمال جرات کا مظاہرہ کرکے اسے بچالیا البتہ سنگھپورہ پٹن میں اس معصوم کی جان نہیں بچائی جاسکی جو نالے میں ڈوب گئی اگر دریا اور ڈل کے کناروں پرباضابطہ پولیس دستے تعینات کئے جاتے اور سول اہلکاروں کی بھی ڈیوٹی لگائی جاتی تو بغیر احتیاطی تدابیر اختیار کئے نوجوان اور بچے وغیرہ ڈبکیاں لگاتے نہیں دیکھے جاتے اسلئے عام لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس معاملے میں اپنی اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے نبھائیں اور نوجوانوں اور بچوں کی قیمتوں جانوں کو بچائیں۔