وقت بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ۔یعنی اس وقت زمانہ اچھی خاصی تیز رفتاری کے ساتھ چل رہا ہے ۔ہمار ا رہن سہن ،کھانے پینے کی عادتین بدل گئی ہیں ۔روز مرہ کے معاملات میں نمایاں تبدیلی آرہی ہے ۔لوگ مختلف کام کرکے پیسے تو کمارہے ہیں لیکن ضروریات بڑھ گئی ہیںآمدن اور خرچے میں کوئی توازن برقرارنہیں رکھا جاسکا ہے نتیجے کے طور پر جو غریب اور متوسط طبقہ ہے وہ حالات کی مار بُری طرح کھا رہا ہے ۔کمائی چاہے کتنی بھی ہو لیکن اخراجات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں اس طرح پورے گھر کا بجٹ بکھر کر رہ جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی پریشانیاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔گھر کے سارے افراد خانہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ گھروں میں ماحول خراب ہونے لگاہے اور فتنے فسادات شروع ہونے لگے ہیں ۔ایک عجیب ساماحول پیدا ہوگیاہے ۔خوشیاں ختم ہوگئی ہیں اور غم و پریشانیوںکے ایسے بادل چھا گئے ہیں جو کبھی واپس جانے کانام تک نہیں لیتے ہیں ۔یہیںسے ایک ایسا ماحول پنپنے لگاہے جس کا انجام ہر گزہرگز ٹھیک نہیں ہوسکتا ۔یہ کسی ایک گھر کی نہیں بلکہ ہر کشمیری کنبے کو لگ بھگ اسی صورتحال کا سامنا ہے ۔ہر فرد درپیش حالات کو الگ الگ زاوئے سے دیکھتا ہے ۔اور اپنے طریقے سے حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے ۔جب کو ئی قابل قبول حل نظر نہیں آتا تو اس کی زندگی الجھنوں ،انتشار ،تفکرات ،بے چینی ،بے بسی میں گذر جاتی ہے ۔اگر ہم غور کرینگے تو زندگی کتنی حسین شے ہے لیکن اس کی ہم نہ تو قدر کرسکے اور نہ ہی اس کے رموز و اسرار کو سمجھ سکے ہیں ۔اگر کبھی کوشش بھی کی تو اپنی بے بسی بے کسی اور پریشانیوں کی وجہ سے اس طرح کی کوششیں کوئی رنگ نہیں لاسکیں ۔ پورا معاشرہ ایک ہی کشتی میں سوار ہوکر رہ گیا ہے ۔یعنی جو حال ایک گھر کا ہے وہ حال دوسرے گھر کا بھی ہے ۔اب فرق صرف یہ ہے کہ کسی میں کم الجھنیں اور کسی میں زیادہ تفکرات ۔جو کوئی اپنی فہم و فراست سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے وہ کسی حد تک کامیاب ہوجاتاہے لیکن زیادہ تر لوگ عمر بھر غموں ،پریشانیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔اب کوئی اس طرح کی صورتحال کو برداشت نہیں کرتا ہے اور انتہائی فیصلہ لیتا ہے یعنی خود کشی ۔آج کل ہر دوسرے تیسرے دن خودکشیوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ایک دن ایسی خبر سننے کو ملتی ہے کہ کسی شخص نے دریا میں چھلانگ لگائی ۔دوسرے دن یہ خبر ملتی ہے کہ کسی کی لاش چھت سے لٹکتی ہوئی برآمد کی گئی ۔کوئی زہر کھاکر زندگی کا خاتمہ کرتاہے تو کوئی اپنا گلہ گھونٹ دیتا ہے ۔ان ہی دنوں ایک اور شہر ی نے جہلم میں چھلانگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کیا ۔ایک اور خبر سننے کو ملی جس میں بتایا گیا کہ سوپور کی جس لڑکی نے تین ماہ قبل جہلم میں چھلانگ لگائی تھی اس کی لاش بارہمولہ میں دریا سے پولیس نے برآمد کرلی ہے ۔ایک دو ہفتے قبل ایک خاتون نے شہر خاص میں پل سے چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔یہ سب وارداتیں اس لئے رونما ہورہی ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اب ایسے معاملات پیش آنے لگے ہیں جن کا پہلے تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا ۔دیکھا دیکھی ،مادہ پرستی ،منشیات کا بے تحاشہ استعمال ،گھر وں میں لڑائی جھگڑ ے وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے کشمیری معاشرے کا تانا بانا بلکہ یوں کہیئے کہ اس کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا ۔سب اپنی اپنی دھن میں مگن کسی کو اس کی فکر نہیں کہ ہم کس طرح لوگوں کو ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کے لئے ان کی رہنمائی کرینگے جس میں امن و سکون ہو ۔لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھ سکیں گے اور ظاہری نمود و نمایش سے دور ہوکر باوقار زندگی گذار یں گے ۔