دو ایک ماہ قبل جھیل ڈل میں ایک ہاوس بوٹ میں اچانک آگ لگنے سے اس میں محو خواب تین سیاح زندہ جل کر لقمہ اجل بن گئے ۔یہ تینوں سیاح اپنے ساتھیوں سمیت کئی ہاوس بوٹوں میں تھے ۔اچانک ایک رات شارٹ سرکٹ سے آگ لگ گئی اور اس ہاوس بوٹ میں قیام پذیر تین سیاح زندہ جل گئے آگ کی اس واردات میں کئی ہاوس بوٹ اور دوسرے ڈھانچے جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ۔نقصان کا اندازہ کروڑوں لگایا گیا ۔اس سے قبل بھی جھیل ڈل اور نگین جھیل میں آگ کی متعدد وارداتیں رونما ہوئیں جن میں اب تک ایک درجن سے زیادہ ہاوس بوٹ اور دوسرے ڈھانچے جل کر راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے ۔مقامی باشندوں یعنی ہاوس بوٹ اونرس اور کشتی باشوں کا کہنا تھا کہ اگر جھیل ڈل میں آگ بجھانے والی گاڑی یعنی تیرتی فائیربریگیڈ ہوتی تو آگ سے اتنی تباہی نہیں مچتی ۔متعلقہ حکام کو بار بار آگاہ کیا گیا لیکن بقول ان کے انہوں نے اس بارے میں کوئی کاروائی نہیں کی ہے ۔اس کے بعد درد دل رکھنے والے کچھ لوگوں نے از خود ہنگامی طور پر آگ بجھانے والی کشتی بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔اس نیک عمل میں دوسرے کئی لوگوں نے بھی ان کی مدد کی اور آخر کار 21جنوری بروز اتوار یہ کشتی پانی میں اتاری گئی جس سے ہاوس بوٹ اونرس اور دوسرے کشتی باشوں نے اطمینان کا اظہار کیا اور اسے بروقت قدم قرار دیا گیا ۔اس طرح کی کشتی کی حد سے زیادہ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کیونکہ محکمہ فائیر اینڈ ایمر جنسی سروسز کی طرف سے اب تک ہزاروں ہاوس بوٹ اونرس اور کشتی باشوں کے اس دیرینہ جائیز مانگ کو نظر انداز کیا جاتا رہا ۔یہ بات ہاوس بوٹ اونرس نے بتائی ان کا کہنا ہے کہ ہاوس بوٹ ویلفئیر ٹرسٹ کے بینر تلے ہاوس بوٹ مالکان ،سماجی کارکنوں اور دوسرے سٹیک ہولڈرس کی کوششیں رنگ لائیں ۔کشتی کو پانی میں اتارنے کے موقعے پر طارق احمد پتلوجس نے اس کشتی کو تیار کرنے میں کلیدی رول ادا کیا نے بتایا کہ ”میں نے ہنگامی حالات میں ایسی سہولت کی ضرورت محسوس کی ۔مجھے ایسے حالات میں فون کالز موصول ہوتی ہیں کیونکہ ہم نے طبی امداد کی بروقت فراہمی کیلئے پہلے ہی ایک تیرتی ایمبولنس تیار کرکے رکھی ہے “ انہوں نے کہا کہ ”کشتی کی تخلیق کیلئے درکار مالی امداد تمام سٹیک ہولڈرس نے فراہم کی جس سے بالااخر جھیل ڈل میں آگ بجھانے والی کشتی کا وجود ممکن ہوا ۔“اگرچہ یہ ایک مستحسن قدم قرار دیا جاسکتاہے لیکن جھیل ڈل میں ایک کشتی کافی نہیں ہوسکتی ہے جو اتنے ہاوس بوٹوں اور دوسری چھوٹی بڑی کشتیوں کا احاطہ کرسکتی ہے ۔اسلئے دوسرے لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ ا س اقدام سے سبق حاصل کریں اور جس طرح بلیوارڈ سائیڈ پر یہ تیرتی ہوئی آگ بجھانے والی کشتی پانی میں اتاری گئی اسی طرح جھیل کے دوسرے حصوں یعنی حضرتبل ،نگین ،کانی کچی ،لوکٹ ڈل ،بوڈ ڈل اور دوسرے علاقوں میں بھی اسی طرح کی کشتیوں کو معرض وجود میں لانے کیلئے اقدام اٹھائیں تاکہ آگ کی ناگہانی صورت میں اس پر قابو پانے کیلئے فوریکاروائی ممکن ہوسکے اور جب تک فائیربریگیڈ پہنچ پائے تب تک اس کشتی کی مدد سے آگ کو پھیلنے سے روکنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے ۔