سرکاری طور پر اس بات کا اعلان کیا گیا کہ بٹہ مالو کے قریب ٹٹو گراونڈ کی اراضی جو 139ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے کو عالمی معیار کی تفریحی پارک میں تبدیل کیا جاے گا جس پر بھاری رقم خرچ ہوگی سیاحت کے نقطہ نگاہ سے یہ پارک انتہائی جاذب نظر ،خوبصورت ،خوشنما اور دل کو لبھانے والی ہوگی جو زیادہ سے زیادہ لوگوں اور خاص طور پر سیاحوں کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوسکتی ہے ۔اس پارک کا ڈیزائین اور دوسرے متعلقہ امور کے بارے میں بین الاقوامی نوعیت کے مشہور و معروف آرکیٹیکٹروں سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد باہر سے ہی ڈیزائنرس لائے جاینگے جواس پارک کی خوبصورتی میں چار چاند لگاینگے اور اسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کرکے اسے بھارت کی مشہور پارکوں میں شامل کرینگے۔چنانچہ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کو مربوط کرنے کے لئے انتظامی سیکریٹری محکمہ صنعت و حرفت کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔سرکاری ذرایع کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں سیاحتی سرگرمیوں کی ترقی کے لئے یہ ایک اہم موقع ہے اور اس سلسلے میں باہمی معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں ۔کمیٹی کی طرف سے رپورٹ پیش کرنے کے ساتھ ہی اس پر کام شروع کیا جاے گا۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ موجودہ انتظامیہ نے سیاحت کو فروغ دینے کیلئے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں اور سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ نئے نئے سیاحتی مقامات کو کھو ج نکالا جس سے سیاحوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور اب چلہ کلان میں بھی بھاری تعداد میں سیاح وادی کی سیاحت پر آرہے ہیں اور اس وقت یہاں سیاحوں کی بھاری تعداد قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کیلئے سیر و تفریخ میں مصروف نظر آرہی ہے ۔اکثر سیاح برفباری کا لطف اٹھانے کیلئے آئے ہیں لیکن انہیں کافی مایوسی ہوئی ہے کیونکہ اب تک یعنی جنوری کا تقریباً نصف مہینہ گذر گیا لیکن ابھی تک یہاں برفباری کا نام و نشان تک نظر نہیں آرہا ہے ۔ہوسکتاہے کہ آنے والے ایام میں برفباری بھی شروع ہوجاے اور سیاح اس سے کافی محظوظ ہوں گے ۔بعض سیاح جو اس وقت وادی میں موجود ہیں اس بات پر ناراض نظر آئے کہ ہوائی کمپنیوں کی طرف سے سرینگر کے لئے من مانی کرایہ کی شرحیں وصول کی جارہی ہیں اس بارے میں مرکزی وزارت شہری ہوا بازی کی خاموشی باعث تشویش ہے کیونکہ ہوائی کمپنیوں کو مناسب ہوائی کرایہ کی شرحیں مقرر کرنے کا پابند بنایا جانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا جارہا ہے ۔ادھر وادی میں ہوٹل والوں نے بھی کہا کہ اس وقت اگرچہ سیاحوں کی اچھی خاصی تعداد وادی میں موجود ہے لیکن ان میں سے بیشتر اضافی ہوائی کرایہ کی شرحوں سے پریشان ہیں ان کا کہنا ہے کہ وادی میں اس وقت جتنے سیاح موجود ہیں اس سے دوگنے سیاحوں کی آمد متوقع تھی لیکن بقول ان کے بہت سے سیاح اتنی زیادہ ہوائی کرایہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں اور نتیجے کے طور پر انہوں نے یہاں آنے کا پروگرام منسوخ کردیا ہے اور وہ اس کے بجاے ہماچل وغیرہ کی سیر کو جانا پسند کرتے ہیں جہاں زیادہ تر سیاح بسوں میں آتے جاتے ہیں ۔چنانچہ اس بارے میں لیفٹنٹ گورنر نے گزشتہ ایام میں یہ معاملہ نئی دہلی میں وزارت شہر ی ہوائی بازی کے افسروں کے ساتھ اُٹھایا اور ان سے استدعا کی کہ ہوائی کمپنیوں کو سرینگر اور دہلی کے درمیاں مناسب کرایہ کی شرحیں مقرر کرنے کا پابند بنایا جاے ۔