یہ بات باعث اطمینان ہے کہ اس سال سرینگر جموں شاہراہ پر کہیں پربھی میوہ بردار ٹرکوں کو نہیں روکا جارہا ہے ۔یہ ٹرک منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہیں ۔ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ہر روز تقریباً ایک ہزار سے پندرہ سو تک میوہ بردار ٹرک سرینگر جموں شاہراہ پر میوہ لے کر جاتی ہیں جنہیں کسی بھی صورت میں اور کہیں پر بھی ان کوروکا نہیں جارہا ہے جبکہ اس سے قبل میوہ بردار ٹرکوں کو گھنٹوں کی بات ہی نہیں کئی کئی دنوں تک بقول فروٹ گروورس بلاوجہ روک کر کشمیری فروٹ تاجروں کو بھاری نقصان سے دوچار کردیا جاتاتھا لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے ۔ان میوہ تاجروں کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے یہ سارا معاملہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی نوٹس میں لایا تو انہوں نے چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارون کمار مہتہ کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں کہ کہاں پراور کون لوگ شاہراہ پر کشمیری میوہ بردار ٹرکوں کو روک رہے ہیں چنانچہ چیف سیکریٹری کی ذاتی کاوشوں کے نتیجے میں یہ مسلہ ءحل کیا گیا اور اب کشمیری میوے کو لے کر باہر کی منڈیوں میں میوہ لے کر جانے والے ٹرکوں کو شاہراہ پر نہیں روکا جارہا ہے ۔نتیجے کے طور پر کشمیری میوہ تہواروں کے سیزن پر وقت پر باہر کی منڈیوں میں پہنچ رہا ہے اور فروٹ گروورس کا کہنا ہے کہ خراب موسمی صورتحال کے باوجود میوے کے دام اچھے مل رہے ہیں تاہم اس سال غیر موافق موسمی صورتحال سے میوے کو جس قدر نقصان ہوا ہے اس کی بھر پائی مشکل سے ہوگی۔فروٹ گروورس کا کہنا ہے کہ دیوالی اور دوسرے آنے والے تہواروں سے قبل ہی کشمیری میوہ باہر کی منڈیوں میں پہنچانے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ کشمیری میووں کا لطف اٹھاسکیں جس سے ان کی خوشیاں دوبالا ہوسکیں۔فروٹ گروورس کے مطابق کشمیری میوے کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے کیونکہ اس کی رنگت اور ذایقہ منفرد قسم کا ہے اور ایسا دنیا میں اگنے والے کسی بھی میوے کا نہیں ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ مرکزی حکومت نے باہر سے میوہ درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس پر لگنے والے ٹیکسوں کو بھی کم کردیا ہے گویا باہر کے فروٹ گروورس کو کافی مراعات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس سے واقعی کشمیر کی میوہ صنعت متاثر ہوسکتی ہے ۔ان حالات میں حکومت کو اس سارے معاملے کا از سر نو جائیزہ لینا چاہئے اور اس طرح کا کوئی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے جس سے گھریلو صنعتیں کسی بھی طور پر متاثر ہونے کا احتمال ہو ۔کشمیر کے فروٹ گروورس نے اس سارے معاملے پر جن خدشات کا اظہار کیا ہے ان کو دور کرنے کے لئے حکومت ہند کو چاہئے تھا کہ وہ کشمیری فروٹ گروورس کو اعتماد میں لے کر باہمی صلاح مشورے کے بعد کوئی فیصلہ کرتی لیکن بقول فرووٹ گروورس ایسا نہیں کیا گیا بلکہ درآمد ی میوے پر جو ٹیکس لگنا چاہئے تھا اس پر بھی رعایت دی گئی جس پر فروٹ گروورس میں اس کاروبار کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا اور ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسی طرح اپنے فیصلے پر کا ربند رہے گی تو اس سے واقعی کشمیر میں فروٹ انڈسٹری کو بقول ان کے نقصان پہنچ سکتاہے ۔جبکہ کشمیر میں سیاحت کے بعد فروٹ انڈسٹری ایسا دوسرا سیکٹر ہے جس پر وادی کی اقتصادیات کی عمارت اس کھڑی ہے اور تقریباًچالیس لاکھ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے ۔