وایلڈ لایف ہفتہ منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عام آدمی جنگلوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے سر لے کر اس بارے میں اپنے فرایض پورے کرے ۔لیفٹننٹ گورنر نے اس سلسلے میں واک تھون کو ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا اور اس موقعے پر یہی بات بتائی کہ یہ صرف سرکار کی ہی نہیں عام لوگوں کو بھی جنگل اور جنگلی حیات کے تحفظ کی ذمہ داری اپنے سر لینی چاہئے ۔یعنی جہاں حکومت جنگلوں اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے سرگرم ہے اسی طرح لوگوں کو بھی اس بارے میں سرکار کو تعاون دینا چاہئے ۔جب ہم اس معاملے کی تہہ تک جاتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں جنگلوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے ۔یعنی جب ہم جنگلوں کو تحفظ فراہم کرینگے تب ہی جنگلی حیات کا تحفظ یقینی بن سکتاہے اور جب جنگلوں کی بے دریغ کٹائی ہوگی تو جنگلی حیات کو کس طرح تحفظ فراہم کیا جاسکتاہے ۔ماضی میں ہم نے دیکھا یعنی گذشتہ تیس برسوں کے دوران وادی کے جنگلوں کا ستیا ناس کردیاگیا۔جنگل چوروں نے سرسبز درختوں کی اس طرح کٹائی کی کہ جہاں کل تک سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی تھی یعنی جن جنگلوں میں اتنے گھنے درختوں کا سایہ تھا کہ سورج کی روشنی زمین پر نہیں پڑتی تھی آج وہاں چٹیل میدان نظر آرہے ہیں ۔جنگلوں کا اس قدر صفایا کیا گیا ہے کہ اب ہمارے جنگلوں میں کرکٹ اور فٹ بال سٹیڈیم بھی تعمیر کئے جاسکتے ہیں۔لیفٹننٹ گورنر کا یہ کہنا ہے کہ جنگلوں اور جنگلی حیات کا تحفظ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے لیکن حکومت کو یہ دیکھنا چاہئے کہ جنگلوں کا ستیاناس کرنے والے کون لوگ ہیں کس طرح جنگلوں کو تباہ و برباد کیا گیا ۔اگر ایسا نہ کیا گیا ہوتا تو آج جنگلی درندے انسانی بستیوں میں اس طرح گھومتے پھرتے نظر نہیں آتے جس طرح وہ آج گھومتے رہتے ہیں ۔ان جنگلی درندوں نے تقریباًا یک درجن سے زیادہ بچوں کو اپنا نوالہ بنالیا جبکہ بہت سی عورتوں او رمردوں کو بھی جنگلی جانوروں نے ان کی چیر پھاڑ کرکے رکھ دی ہے ۔کبھی ریچھ تو کبھی تیندوے بستیوں میں گھس کر انسانوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں ۔یہ صرف اس وجہ سے ہوا جب ان کی قدرتی پناہ گاہوں پر آرے چلائے گئے تو یہ جنگلی حیات بھوکے پیاسے انسانی بستیوں کی طرف رخ کرتے ہیں ۔اس دوران ان کے سامنے جو کوئی بھی آتا ہے اسے یہ جانور چیر پھاڑ کے رکھ دیتے ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب جنگل ہی نہیں رہے تو جنگلی جانور کہاں جائینگے ؟ جنگلوں کو تحفظ دینے کی ذمہ داری جس قدر حکومت کی ہے اسی قدر عوام پر بھی ذمہ داری عاید ہوتی ہے لیکن جنگلوں سے دور رہنے والے لوگ اس بارے میں زیادہ کام نہیں کرسکتے ہیںبلکہ جنگلوں کے قریب رہنے والے لوگوں پر اس حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں کہ وہ جنگل چوروں کو پکڑنے کیلئے متحرک ہوجائیں اور اگر کوئی سرکاری کارندہ جنگل چوروں کے تئیں نرمی کا مظاہرہ کرے گا لیکن مقامی لوگ ایسے عناصر کو بے نقاب کرکے جنگل چوروں کو پولیس سے پکڑ وا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرسکتے ہیں بشرطیکہ لوگ اس معاملے میں سرگرم ہوجائیں اس سے خودبخود جنگلی حیات کو بھی بچانے میں مدد مل سکتی ہے ۔