34برسوں کے بعد انتظامیہ نے گرو بازار سے ڈل گیٹ تک 8محرم کے اس جلوس کو نکالنے کی اجازت دی جسے وقت وقت کی حکومتیں سیکورٹی کی آڑ میں برآمد ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں ۔حالانکہ یہ ایک مذہبی جلوس ہوتا ہے جس کا سیاست یا سیاستدانوں سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے اور پھر نہ جانے کیوں اس جلوس کو نکالنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی حالانکہ کشمیر میں کبھی کوئی فرقہ وارانہ فساد رونما نہیں ہوا ۔یہاں کے لوگ اتنے کم ظرف نہیں کہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دیں ۔لیکن وقت وقت کی حکومتوں نے صرف اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کے لئے اس مذہبی جلوس کو برآمد ہونے کی اجازت نہیں دی ۔جبکہ موجودہ انتظامیہ نے جس طرح جلوس کو برآمد کرنے کی اجازت دی اور جس طرح شعیہ برادری نے پرامن طور پر جلوس نکالا اور امام عالی مقام ؓ اور دوسرے شہدائے کربلا کو خراج عقیدت ادا کیا اس سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ اس جلوس پر پابندی عاید کرنا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا ۔بہر حال یہ متبرک ایام ہمیں شہدائے کربلا کی یاد دلاتے ہیں جنہوں نے نہتے ہوکر بھی باطل کے سامنے گردن جھکانے کے بجاے شہادت کو ترجیح دی ۔امام عالی مقامؓنے عزیمت و استقامت کی راہ پر گامزن ہوکر بے مثال قربانیاں دیں ،اپنی موج خون سے اَقدار حق کے احیا کا ایک نیا گلستان آباد کیا اور تاقیام قیامت ظلم و استبداد کی راہوں کو مسدود کرنے والوں کے لئے مثالی کردار بنے ۔علامہ اقبال امام عالی مقامؓکو فہم قران ،احیائے اقدار ِدین ،تسلیم و رضا ،صبر و قناعت و استقامت کے لئے معیار و مدار سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک امام عالی مقامؓبے مثال ایثار و استقامت کا ایک ابدی استعارہ ہیں ۔جب ہم واقعہ کربلا پر غور کرتے ہیں تو ایک بات صاف صاف سمجھ میں آتی ہے کہ یہ سب حق و باطل کا ایسا معرکہ تھا جس میں اگر تھوڑا سا ردوبدل ہوتا تو آج صورتحال کچھ مختلف ہوتی چونکہ اسلام دین حق ہے اور اس کو آگے بڑھانا مقصودتھا تو حق کی آواز بلند کرنے والوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے گئے باطل نے معصوموں کو بھی نہیں بخشا ،خواتین کی عزت و عزیمت کی پروا نہیں کی اور اپنی درندگی کا بے پناہ مظاہرہ کرکے بظاہر حق کو دبانے کی کوشش کی لیکن حق آخر سورج کی طرح پوری دنیا پر چھاگیا اور رہتی دنیا تک اسی طرح حق کا بول بالا ہوگا۔علامہ اقبال حق کو چراغ ِ ِمصطفوی اور باطل کو شرار بولہبی سے تعبیر کرتے ہوے کہتے ہیں
ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغِ مصطفوی سے ،شرار ِبولہبی
یعنی ازل سے آج تک حق وباطل کے مابین معرکے بپا ہیں ،چراغ ِمصطفوی سے شَرار بولہبی کی جنگ جاری ہے ۔علامہ اقبال نے ابولہب کی حقارت واضح کرنے کے لئے اسے ایک معمولی شرارہ قرار دیا اور عظمت مصطفیکے ااظہار کے لئے اس شرارے کے مقابلے میں لفظِ چراغ استعمال کیا ۔چراغ دیر پا روشنی کا ایک استعارہ ہے جبکہ شرارہ ایک لمحاتی اور عارضی چمک دکھا کر بجھ جاتا ہے ۔علامہ اقبال امام عالی مقامؓ کو حق وباطل کی اسی جنگ کا استعارہ قرار دیتے ہوے کہتے ہیں