کل یعنی سوموار کو کوکر ناگ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کی ہر مکتب فکر کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے ۔تین عارضی ڈیلی یجروں نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق دن دھاڑے خود سوزی کی کوشش کی لیکن وہاں موجود عام لوگوں نے ان کو بچاکر ہسپتال پہنچادیا جہاں اطلاعات کے مطابق ایک ڈیلی ویجر کی حالت ناز ک بتائی گئی کیونکہ اس کے جسم کے کئی نازک حصے آگ سے متاثر بتائے جاتے ہیں ۔یہ معاملہ کیا ہے اس کی گہرائیوں میں جانے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا ایک افسر اپنے ماتحت عملے کو دھمکیاں دے سکتاہے کہ انہیں کسی دور دراز علاقے میں تبدیل کیاجاے گا۔؟یہ مقامی لوگوں اور سرپنچوں نے ان ڈیلی ویجروں کے ایک افسر پر الزامات عاید کئے ۔ان الزامات میں کہاں تک سچائی ہے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ پولیس نے اس افسر کی گرفتاری عمل میں لائی اور اسے حوالات میں بند کرکے اس سے پوچھ گچھ شروع کردی گئی ۔سرکاری ملازمین خواہ اس کی حیثیت کس نوعیت کی کیوں نہ ہواس کے ساتھ اس کے افسر کو کیسے پیش آنا چاہئے اس بارے میں سی ایس آر باضابطہ ہیں اور اس میں کسی شک و شبہے کی گنجایش نہیں ۔اگر کوئی ملازم اپنے افسر کے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردے گا یعنی اس پر حکم عدولی کا الزام ہو تو اس کے ساتھ قانون کے دائیرے میں رہ کر کس طرح نمٹا جانا چاہئے باضابطہ سی ایس آر میں درج ہے لیکن ملازم کے ساتھ گالی گلوچ یا انہیں ہراساں کرنے کا کسی بھی افسر کو حق نہیں اسلئے کوکر ناگ کے اس واقعے کی بڑے پیمانے پر اور صاف و شفاف طریقے پر تحقیقات کی جانی چاہئے تاکہ آیندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آسکے ۔کہا جارہا ہے کہ اگر لوگ بروقت جاے واردات پر نہیں پہنچ پاتے تو تینوں ملازمین کی موت ہوچکی ہوتی۔سرکاری ملازم کی بھی اپنی ایک حیثیت ہے اور افسر بھی ایک حیثیت کا مالک ہوتا ہے دونوں کے اپنے اپنے حقوق ہیں اور دونوں کی الگ الگ ذمہ داریاں ہیں ان ذمہ داریوں کو جو کوئی اچھی طرح سے نبھائے گا وہی ایک ذمہ دار افسر اور ملازم کہلاے گا اور جس کسی نے اپنی ذمہ داریوں کا بھر پور احساس نہ کرتے ہوے من مانیاں کی ہیں تواس کے خلاف قانون کو اپنا کام کرنے سے کوئی نہیں روکتا ہے ۔کوکر ناگ میں پیش آے ہوے واقعے کے بارے میں قارئین کرام کو جاننا ضروری ہے جن ملازمین نے خود سوزی کی کوشش کی ہے ان کو کس طرح سے تنگ طلب کیا گیا ہوگاکہ انہوں نے آو دیکھا نہ تاﺅ بس اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کی کوشش کی ۔انسان کو اپنی زندگی سے کس طرح اور کتنا پیار ہوتاہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ معمولی سی معمولی بیماری کی صورت میں بھی لوگ بڑے ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں۔زندگی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور جب کوئی اسی قیمتی شے کو اپنے ہی ہاتھوں تلف کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ سوچنے والی بات ہے کہ اس پر کس قدر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہونگے کہ وہ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے لگتا ہے ۔اب کوکر ناگ کے واقعے کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہئے اور جو کوئی بھی قصور وار پایا جاے گا اسے قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے ۔