شہر خاص میں رہنے والے لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لئے دو اہم طبی اداروں کا رول ناقابل فراموش ہے جن میں مہاراج گنج کا ہسپتال اور غوثیہ ہسپتال خانیار قابل ذکر ہے ۔شہر خاص کا سب سے پرانا اور قابل اعتماد ہسپتال مہاراج گنج میں ہے جس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ بتائی گئی ۔پہلے اس کی حیثیت ایک ڈسپنسری کی سی تھی لیکن اب اس کو اعلیٰ طبی ادارے کی شکل دی گئی ہے اور اس طبی ادارے میں نامور کشمیری ڈاکٹروں نے اپنی خدمات انجام دی ہیں ۔لوگوں نے ہمیشہ اس ہسپتال میں تعینات ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی کارکردگی کو سراہا اور ان کے جذبہ ہمدردی اور لوگوں کی خدمت کو ناقابل فراموش قرار دیا ۔اب بھی ڈاون ٹاون کی آبادی کا بڑا حصہ اس ہسپتال سے علاج معالجے کے حوالے سے مستفید ہورہا ہے ۔اس کے بعد نیشنل کانفرنس کے دور حکومت میں باباڈیمب خانیار میں غوثیہ ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا جس سے مہاراج گنج ہسپتال پر مریضوں کا بوجھ کچھ کم ہوا کیونکہ اب ڈاون ٹاون میں رہنے والے لوگوں نے جو غوثیہ ہسپتال کے گرد و نواح میں رہتے ہین اسی طبی ادارے کا رخ کرنا شروع کردیا اور اس سے پہلے جو مریض مہاراج گنج ہسپتال مین اپنا علاج معالجہ کروانے آتے تھے اب غوثیہ ہسپتال کا رخ کرنے لگے بہر حال دونوں طبی اداروں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ قایم ہے ۔لیکن گذشتہ دنوں خانیار اور اس کے گرد ونواح میں رہنے والے لوگوں نے بتایا کہ اس ہسپتال کو بقول ان کے کسی دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے اور جب انہوں نے اس اطلاع کے حوالے سے متعلقہ حکام سے رابطہ قایم کیا تو وہ کوئی معقول جواب نہیں دے سکے ۔البتہ اس کے برعکس اس ہسپتال کے میڈیکل سپر انٹنڈنٹ نے ایک مقامی اخبار کو بتایا کہ ہسپتال کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا فی الحال کو ئی ارادہ نہیں ہے البتہ ہسپتال میں صاف ستھرائی کے حوالے سے پرانی مشینوں کو نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے جس کو دیکھ کر لوگوں نے سمجھا کہ شاید ہسپتال کو کسی دوسری جگہ منتقل کیا جارہا ہے ۔میڈیکل سپرانٹنڈنٹ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ ہسپتال کے ساتھ ہی جو پارک ہے اس میں کووڈ کے دوران عارضی شیڈ تعمیر کئے گئے تھے جن میں تین چار شعبے اب بھی کام کررہے ہیں لیکن مقامی دکانداروں نے اس پر اعتراض کیا اسی لئے ان شیڈوں کو ہٹایا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ہسپتال کے او پی ڈی میں اب بھی جگہ کی کمی محسوس کی جارہی ہے اس کا کہنا ہے کہ جب یہ ہسپتال بن کر چالو ہواتھا تو اس وقت او پی ڈی میں ساٹھ سے ستر تک مریضوں کی روزانہ رجسٹریشن ہوتی تھی لیکن آج اسی او پی ڈی میں ہزار سے پندرہ سو تک مریضوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس ہسپتال میں جگہ کی اس قدر کمی ہے کہ جو شعبے گراو نڈ فلور میں ہونے چاہئے وہ دوسری تیسری منزلوں پر کام کررہے ہیں ۔جن میں خاص طور پر زچگی ،ایمر جنسی حادثات اور ہڈیوں کا شعبہ شامل ہے ۔ہسپتال کے میڈیکل سپرانٹنڈنٹ کا بیان جہاں صحیح ہے لیکن حکومت کو چاہئے کہ ہسپتال کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے بجاے ان شعبوں کے لئے قریب ہی زمین لی جاے اور وہاں ان شعبوں کی تعمیر کی جاے تاکہ ڈاون ٹاون میں رہنے والے لوگوں کو طبی سہولیات کے حوالے سے کسی مشکل صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔