یوٹی انتظامیہ کی طرف سے اگرچہ میوہ بیوپاریوں کے مسایل و مشکلات دور کرنے کی حتی الامکان کوششیں کی جارہی ہیں اس کے باوجود میوہ بیوپاری ابھی تک مطمین نہیں ہوسکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بارے میں فوری اور ہنگامی نوعیت کی کاروائی کرنی چاہئے تھی تاکہ وادی کا میوہ بروقت باہر کی منڈیوں تک پہنچ پاتا۔میوہ اس قدر حساس شے ہے کہ اگر اسے استعمال یعنی کھانے میں تھوڑی سی بھی تاخیر ہوجاے گی تو وہ سڑنا شروع ہوتا ہے اور دو تین دن بعد بالکل ناقابل استعمال بن جاتا ہے ۔اس سال میوے کی فصل جہاں اچھی ہوئی وہیں دوسری طرف اس کی ٹرانسپورٹیشن میں تاخیر سے میوہ بیوپاریوں کو کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔میوہ بیوپاریوں کا الزام ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ پر میوہ ٹرکوں کو بار بار روکنے سے میوہ سڑگیا اور جب تک یہ باہر کی منڈیوں تک پہنچ گیا یہ تقریباً تقریباًختم ہوچکا ہوتا تھا۔کشمیر کا میوہ کچھ عرصہ سے بنگلہ دیش اور نیپال بھی جاتا رہا ہے لیکن اس سال چونکہ میوہ ٹرکوں کو سرینگر جموں شاہراہ پر روکا گیا جس کی بنا پر یہ میوہ وقت پر ڈھاکہ کی منڈیوں میں نہیں پہنچ سکا ہے اس طرح کشمیری میوے کی خریداری مقابلتاًبنگلہ دیش میں تقریباً تقریباً ختم ہوکر رہ گئی جن تاجروں نے اپنا میوہ بنگلہ دیش میںفروخت کرنے کے لئے بھیجاتھا وہ اس وقت پچھتانے لگے ہیں ۔ان کے پیسے ڈوب گئے ۔سوشل میڈیا پر بنگلہ دیش میں کشمیری میوے کی جو حالت دکھائی گئی وہ قابل رحم تھی ۔کشمیری سیبوں کے بڑے بڑے انبار لیکن اسی فی صد سیب یا تو سکڑ گئے تھے یا سڑ گئے تھے ۔اسی طرح ممبی ،پونے ،مدراس ،گجرات ،دہلی اور دوسری منڈیوں میں جب وقت پر کشمیری میوہ نہیں پہنچ پایا تو اس کی جگہ ایرانی سیبوں نے لی اور ایرانی سیب ہاتھوں ہاتھ بکنے لگے ہیں ۔سوموار 26ستمبر کو فروٹ منڈی میں احتجاج کرنے والے میوہ تاجروں نے بتایا کہ ایرانی سیب کسی بھی صورت میں کشمیری سیب کا متبادل نہیں ہوسکتا لیکن جب کشمیری میوہ وقت پر منڈیوں میں نہیں پہنچ سکا تو لوگوں کے پاس ایرانی سیب یا دوسری ریاستوں میں اگایا جانے والا میوہ خریدنے کے سوا اور کوئی آپشن باقی نہیں بچتا ہے ۔احتجاج کرنے والے فروٹ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ وہ بنکوں کے مقروض ہیں اور اگر حالات میں فوری طور تبدیلی نہیں لائی جاے گی تو وہ دانے دانے کے محتاج ہوجاینگے ۔اس دوران ڈیویثرنل انتظامیہ نے میوہ تاجروں کو اس بات کا یقین دلایا کہ سرینگر جموں شاہراہ پر درماندہ میوہ ٹرکوں کی ترجیحی بنیادوں پر روانگی یقینی بنائی جاے گی۔اس کے ساتھ ہی ڈویثرنل کمشنر نے کہا کہ شاہراہ پر جب پسیاں گرتی ہیں تو ٹریفک میں خلل پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ٹریفک عملے کو ہدایت دی گئی ہے کہ سب سے پہلے درماندہ میوہ ٹرکوں کو ہی آگے بڑھنے کی اجازت دی جاے ۔انہوں نے اس بارے میں تفصیلات کا اعلان کرتے ہوے کہا کہ اب تک 46ہزار ٹرکیں وادی سے باہر بھیجی جاچکی ہیں جن میں 29ہزار میوہ بردار ٹرک بھی شامل ہیں ۔ڈویثرنل کمشنر کے بیان اور سرکاری اقدامات جہاں اطمینان بخش ہیں وہیں دوسری جانب انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ سرینگر جموں شاہراہ پر ٹریفک عملے کو اس بارے میں خصوصی ہدایات دی جائیںتاکہ میوہ بردار ٹرکوں کو زیادہ دیر تک درماندہ نہیں رہنا پڑسکے ۔