ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی میگڈم کے بجائے کنکریٹ بچھانے کی وکالت
سرینگر//کشمیر گڈس ٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن کے صدر محمد صدیق رونگہ نے کہاہے کہ چیف سیکریٹری ڈاکٹر ارن کمار مہتا نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ٹرانسپورٹ نگر پارمپورہ پروجیکٹ پر جلد ہی کام شروع کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ حال ہی میں سرینگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے انجینئرنگ شعبے سے بھی ملاقی ہوئے جنہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کو جلد ہی پائے تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹ نگر میں گاڑیوں کی بھاری تعداد میں آواجاہی کو مد نظر رکھتے ہوئے کنکریٹ بچھانا ہی بہتر ہوگا۔ٹی ای این کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران ایسوسی ایشن سربراہ کا کہنا تھا کہ منصوبے میںسڑک رابطہ، نکاسی آب نیٹ ورک اور بجلی نیٹ ورک شامل ہے جس کی لاگت 30 کروڑ روپے ہیں ۔منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ نگر میں باغات، گرین سپیسز اور کنٹی جنٹس کی ترقی کیلئے 1.58 کروڑ روپے کی کنسلٹنسی بھی شامل ہے۔سرکار کا کہنا ہے کہ ِس پروجیکٹ کا مقصد سری نگر شہر کی بھیڑ کو کم کرنے اور تمام ٹرانسپورٹ ایجنسیوں کو شہر سے باہر ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے۔

حکومت کے مطابق”یہ اِس اہم کاروباری مرکز میں روڈ نیٹ ورک اور دیگر سہولیات کے لحاظ سے مناسب سہولیات کو یقینی بنانے کا بھی تصور کرتا ہے جبکہ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد تقریباً76ٹرانسپورٹ ایجنسیوں کو فائدہ پہنچنے کے علاوہ مختلف ٹریڈ میں کام کرنے والے لوگوں اور تاجروں کی روزی روٹی فراہم کرے گا۔ کشمیرٹرانسپورٹ ایسو سی ایشن کے صدر محمد صدیق رونگہ جو کہ کشمیر اکنامک الائنس کے ترجمان اعلیٰ بھی ہے نے کہا کہ سیلاب کے دوران متاثرہ مال بردار ٹرانسپوٹروں کو سرکاری امداد سے محروم رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اگرچہ انہوں نے براہ راست سرک و ٹرانسپورٹ کے وزیر نتین گاڈگری کے مسئلہ اٹھایا تھا اور انہوں نے یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ متاثرہ ٹرانسپورٹروں کو امداد فراہم کی جائے گی،تاہم اس کے باوجود بیشتر مال بردار ٹرانسپوٹروں کو سر راہ چھوڑ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ حال ہی انہیں معلوم ہوا ہے کہ ٹرانسپوٹروں کے نام پر آئے امداد کو ان سرمایہ کاروں میں تقسیم کیا گیا ہے،جنکا مال بردار ٹرانسپورٹ کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کو ایک کروڑ 25لاکھ روپے کا امداد دیا گیا اور باقی کمپنیوں کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا۔ رونگہ نے مرکزی سرکار سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کسی مرکزی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعے ہی کرائی جائے۔













