اسمبلی کے رواں اجلاس میں سرکارنے جنگلی جانوروں کی طرف سے انسانی بستیوں میں گھس کر حملوں کی تفصیلات کا اعلان کیا ۔سرکار کی طرف سے بتایا گیا کہ سال 2024-25کے دوران جنگلی جانوروں کے حملوں میں سولہ افراد لقمہ اجل بن گئے جبکہ 180افراد زخمی ہوگئے ۔ایوان میں بتایا گیا کہ اس طر ح کے واقعات یعنی جنگلی جانوروں کے بستیوں میں گھسنے اور انسانوں پر حملوں کے واقعات کی روک تھام کے لئے سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیں ۔اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے انچارج وزیر نے کہا کہ جو سولہ افراد لقمہ اجل بن گئے ان میں سے گیارہ اموات اور زخمیوں میں سے ایک سو بیس افراد کے لئے معاوضہ فراہم کیا گیا ۔اس مدت کے دوران 6252جانوروں کو بچا کر محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کردیا گیا ۔جنگلی جانوروں کی طرف سے انسانی بستیوں میں گھس کر انسانوں پر حملوں کے واقعات کی روک تھام کا ابھی تک کوئی موثر انتظام نہیں کیا جاسکا ہے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا ہوتا تو روز کسی نہ کسی انسانی بستی یعنی گاﺅں میں تیندووں کی گھس پیٹھ کے واقعات رونما نہیں ہوتے ۔گذشتہ دنوں پلوامہ کے ایک گاﺅں میں اس وقت کہرام مچ گیا جب لوگوں نے تیندوے کو ایک میوہ باغ میں گھومتے ہوئے دیکھا اگرچہ اسی وقت متعلقہ محکمے کے ذمہ داروں کو مطلع کیا گیا لیکن تیندوا تب تک دور جاچکا تھا ۔البتہ کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے ۔گزشتہ کئی برسوں سے یہ بات بری طرح محسوس کی جاتی رہی کہ جنگلی جانور اب اکثر و بیشتر بستیوں میں گھس کر بچوں کو اٹھالیتے ہیں یا لوگوں پر عقب سے حملہ کرکے انہیں شدید زخمی کرکے چھوڑ دیتے ہیں ۔بار بار اس طرح کے واقعات کے بارے میں سرکا ر کو اطلاعات دی جاتی رہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسا موثر انتظام نہیں کیا گیا جس سے یہ محسوس ہوتا کہ واقعی حکومت نے لوگوں کے جان و مال کو بچانے کے لئے کوئی خاطر خواہ بندوبست کیا ہے ۔ایوان اسمبلی میں اس حوالے سے بار بار بتایا گیا حکومت انتہائی سنجیدگی سے اقدامات اٹھارہی ہے ۔اس سے قبل ان ہی کالموں میں لکھا جاچکا ہے کہ صرف حکومت کے اقدامات سے اس طرح کے واقعات پر قابو نہیں پایاجاسکتا ہے بلکہ لوگوں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے ۔لوگوں پر سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جنگلوں میں سر سبز درختوں کو دن دھاڑے کاٹنے کا عمل ترک کریں ۔کیونکہ یہ جانوروں کی قدرتی پناہ گاہ ہے اور وہ ان ہی درختوں سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں ۔جب درخت ہی نہیں رہے تو جنگلی جانورمجبوراًبستیوں کا رخ کرتے ہیں ۔جہاں پر وہ جانوروں اور انسانوں کو اپنا نوالہ بناتے ہیں ۔اب تک درجنوں بار جنگلی درندوں نے گاﺅ خانوں میں گھس کر بھیڑ بکریوں کو بھی اپنا نوالہ بنایا جس سے ان کے مالکان کو لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا ۔اسلئے اب حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔تاکہ جنگلی جانورانسانی بستیوں کا رخ نہ کرسکیں۔جو گاﺅں جنگلوں کے قریب ہیں وہ اس بارے میں جاندار رول ادا کرسکتے ہیں ۔وہ سرکار کو روزان گاڑیوں کے بارے میں اطلاع فراہم کرسکتے ہیں جو سرسبز درخت ان میں لوڈ کرکے سمگل کرتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان گاﺅں والوں نے اس بارے میں اپناکوئی رول ادا نہیں کیا ہے ۔اسلئے اب نوجوانوں کو اٹھ کھڑا ہوکر ان جنگل سمگلروں کے خلاف صف آرا ہونا چاہئے جو دن دھاڑے سرسبز درختوں کا صفایا کرکے وادی کے سرمائے کو لوٹ رہے ہیں۔