اس سے قبل بھی اور آج بھی ان ہی کالموں کے ذریعے حکومت کی توجہ اس اہم مسلئے کی طرف مبذول کی جارہی ہے کہ بجلی کا بحران ہر گذرتے دن سنگین ہوتا جارہا ہے اور وعدوں اور دعووں کے باوجود محکمہ اس پر قابو پانے میں ناکام ہورہا ہے ۔وادی میں ہر جگہ لوگ بجلی کے حوالے سے کافی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں اور لوگوں کا کہنا ہے کہ معقول فیس کی ادائیگی کے باوجود محکمہ صارفین کو ایگریمنٹ کے تحت بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہوگیا ہے ۔جہاں ایک طرف کہا جارہا ہے کہ اس سرما میں لوگوں کو حتی الامکان طریقے پر بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی جاے گی اور کٹوتی پرپوری طرح عمل کیا جاے گا لیکن موجودہ صورتحال یہ ہے پورا معاملہ کچھ بے ہنگم سا ہوکر رہ گیا ہے ۔بجلی کی آنکھ مچولی اب روز کا معمول بنتی جارہی ہے جبکہ شہر و گام لوگ اس پر بیزار نظر آتے ہیں ۔حکومت کا کہنا ہے کہ تقریباً نوے فی صد علاقوں میں ڈیجیٹل میٹر نصب کئے گئے ہیں پھر بھی بجلی کی کٹوتی کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ڈیجیٹل میٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کسی میں ہمت نہیں ہے ۔پھر بجلی میں اتنی بے قاعدگی کیوں ؟ یہ ناقابل سمجھ معاملہ ہے ۔ادھر کے پی ڈی سی ایل نے گھریلو صارفین کو سولر روف ٹاپ سکیم نصب کرنے کیلئے آمادہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے ۔یہ سچ بات ہے کہ اب بجلی چوری کی گنجایش نہیں رہی اور نہ ہی کوئی بجلی چوری کرنے کی جرات کرسکتا ہے پھر کیونکر بجلی میں خلل پڑ رہا ہے اور چوبیس گھنٹے میں آٹھ سے دس گھنٹے تک بجلی کٹوتی کیوں کی جارہی ہے ۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب لوگ چاہتے ہیں ۔عام لوگوں کا کہنا ہے کہ بجلی حکام عام لوگوں پر چوری کے الزامات عاید کرتے ہوئے بجلی کٹوتی کو جائیز قرار دینے کی کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن اس وقت جبکہ کوئی چوری نہیں ہوتی ہے اور بجلی کا جائیز استعمال کیا جارہا ہے تو چوبیس گھنٹے میں کم سے کم بیس بائیس گھنٹے بجلی فراہم کی جانی چاہئیے ۔اس سے پہلے بھی کہا گیا ہے کہ موسم سرما کشمیری عوام کے لئے ڈھیر سارے مصائیب اور مشکلات لاتا ہے اور ان میں بجلی سب سے اہم ہے اور اس کے بغیر سرما کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتاہے ۔اب اگر کوئی صارف بقول بجلی حکام چوری کرتا ہے تو اس کے خلاف قانون کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے اس میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرنی چاہئے ۔اسی طرح پانی کی فراہمی ایک ایسا مسلہ ہے جو اب تک پورا نہیں کیا جا سکا ہے حالانکہ لوگ پانی کے بل بھی وقت پر ادا کرتے ہیں لیکن اس معاملے پر بھی حکام کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے ۔ادھر مہنگائی نے تو عام لوگوں کو سخت پریشانیوں میں مبتلا کردیا ہے ۔ساگ سبزیوں کی قیمتوں پر کسی کا بس نہیں ۔جس قیمت پر آج ایک سبزی مل سکتی ہے اس قیمت پر کل وہ سبزی نہیں مل سکتی ہے کیونکہ راتوں رات اس کی قیمت بڑھادی جاتی ہے ۔کہا جارہا ہے کہ یہ سب ڈی کنٹرول ہوگیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈی کنٹرول کے نام پر لوگوں کو لوٹا جاے اور انہیں اُف کرنے کی بھی اجازت نہیں ۔سرکار کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہئے ۔جایز نفع تو جائیز ہی ہے لیکن جب ناجائیز منافع خوری کی جاتی ہے تو سرکار کو اس کا تدارک تو کرنا ہی چاہئے ۔