پہلی کتاب بعنوان ’ کوئی عورت خامیوں والی نہیں‘لکھی
خواتین کوزیادتیوں اور اپنے حقوق کیلئے خود کھڑا ہونا چاہئے: شبینہ شوکت شاہ
سری نگر:۶، مارچ/ کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ لٹریچر یاادب میں پوسٹ گریجویشن کررہی شمالی کشمیر کے بانڈی پورہ ضلع کے کلوسہ علاقے سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ طالبہ شبینہ شوکت شاہ نے اپنی پہلی کتاب لکھی ہے اپنی پہلی تصنیف بعنوان ” کوئی عورت خامیوں والی نہیں“میں جواں سالہ مصنفہ نے عورتوں کے درد اور درپیش اذیت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک مقامی انگریزی اخبار میں چھپی رپورٹ کے مطابق کشمیریونیورسٹی کی طالبہ شبینہ شوکت شاہ نے اپنی اسکولی تعلیم ایگلٹس پبلک اسکول بانڈی پورہ سے حاصل کی ہے اور اپنے آبائی ضلع بانڈی پورہ کےHKM ڈگری کالج سے بیچلرس کی ڈگری مکمل کی ہے۔شمالی کشمیر کی اس اُبھرتی ہوئی مصنفہ شبینہ کا خیال ہے کہ لکھنا اپنے آپ کو ظاہر کرنے اور تخیل کو آزاد کرنے کا ایک خوبصورت طریقہ ہے۔ شبینہ شوکت شاہ نے کہاکہ مجھے تب سے لکھنا پسند ہے جب سے میں نے جملے کو ایک ساتھ رکھنا سیکھا ہے۔انہوںنے بتایاکہ میرے لئے یہ بہت آسان ہے کہ میں اپنے احساسات کو اپنی ڈائریوں میں بیان کر سکوں یا میں کاغذ پر کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں لوگوں کے ساتھ زیادہ زبانی یعنی بولتی نہیں ہوں۔کتاب کے بارے میں جوں سالہ مصنفہ نے کہا کہ اسے شائع کرنے کا مقصد خواتین کے دُکھوں اور ان کے دائمی درد کو اجاگر کرنا تھا۔ شبینہ شوکت شاہ نے کہاکہ ایک عورت کسی بھی عمر میں اپنی زندگی بدل سکتی ہے۔ انہیں صرف ہار ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔جواں سالہ مصنفہ نے کہا کہ وہ اپنی کتاب میں صنفی آواز کے فقدان کی عکاسی کرنا چاہتی ہیں کہ عورت کے پاس ہمیشہ سماجی اظہار کے ذرائع کی کمی ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خواتین اپنے محدود الفاظ کی وجہ سے تجرباتی تعصب کا شکار ہو جاتی ہیں اور اس سے گھر میں ان کی حیثیت اور اثر و رسوخ کم ہو جاتا ہے۔اپنی کتاب کے بارے میں بات کرتے ہوئے شبینہ شوکت شاہ کامزید کہناتھاکہ یہ معاشرے کی بہتری کے لئےلکھنے کی ایک کوشش ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں خواتین اپنا دکھ اور غم کسی کے ساتھ شیئر کرنے یعنی بانٹنے سے قاصر ہیں اور وہ ڈپریشن یعنی دباﺅ میں مبتلا ہو جاتی ہیں جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ شبینہ شوکت شاہ نے خواتین پر زور دیا کہ وہ ان کے وکیل بنیں اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں۔ انہوں نے کہاکہ میرا ماننا ہے کہ خواتین کو ان تمام مشکلات کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے جن کا وہ سامنا کر رہی ہیں اور خود ان کی وکالت کرنی چاہیے۔