زندگی ویسے تو حادثات سے پُررہتی ہے لیکن آج کل جس طرح روزانہ حادثات رونما ہورہے ہیں وہ سب لوگوں کے لئے تشویش کا باعث بنتے جارہے ہیں ۔جہاں ان حادثات کی ذمہ داری عام طور پر محکمہ ٹریفک پر عاید کی جاتی ہے وہیں دوسری طرف والدین کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے جو اپنے نابالغ بچوں یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں کو گاڑیاں اور دو وہلیر چلانے کی ترغیب و تحریک دے کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کا موجب بنتے ہیں ۔حال ہی میں جس عدالت نے ایک نابالغ بچی کے باپ کو تین برس قید کی اس بنا پر سز ا دی کہ اس نے کس طرح اپنی نابالغ بچی کو گاڑی چلانے کی اجازت دی جو ایک حادثے کا باعث بن گئی اس سے عوامی حلقوں میں یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب والدین اپنے بچوں کو گاڑیاں اور سکوٹر چلانے کی سہولیات فراہم کرنے سے قبل دس بار یہ سوچینگے کہ ان سے اگرکوئی حادثہ سرزد ہوا تو اس کی سزا انہیں یعنی والدین کو بھگتنا پڑ سکتی ہے ۔بہر حال بات ہورہی تھی حادثات کی توگزشتہ دنوں ادھم پور کے رام نگر علاقے میں ایک بھیانک حادثہ رونما ہوا جس میں پانچ باراتی ہلاک اور پچاس سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں ۔اس کے بعد کنگن کے قریب ایک اور سڑک حادثہ رونما ہوا جس میں دو دوست از جان ہوگئے اس حادثے سے پورا علاقہ ماتم کدہ بن گیا اس سے صرف ایک ہفتے پہلے اسی طرح کے دو الگ الگ حادثات میں چار دوست لقمہ اجل بن گئے ۔چاروں دو وہیلروں پر سوار تھے ۔جمعرات کو ہی بانڈی پورہ مین گیس سلنڈر دھماکے میں ایک شخص ہلاک اور کئی جھلس گئے جبکہ ایک دوشیزہ کے بارے میں جس کی عمر صرف بارہ تیرہ برس کی تھی نے مبینہ طور خود کشی کرلی ۔اس کی کیا وجوہات تھین اس بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ادھر چند روز قبل جس دوشیزہ نے سیمنٹ پل سے دریا جہلم میں چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی تھی اس کی لاش پالہ پورہ کے قریب جہلم سے برآمد کرلی گئی ۔اسی مدت کے دوران کپوارہ کے ایک گاﺅں میں ایک خاتون کنوئیں میں گر کر موت کے منہ میں چلی گئی ۔غرض جتنے حادثات اب رونما ہورہے ہیں اتنے اس سے قبل کبھی بھی رونما نہیں ہورہے تھے ۔زمانے کے رنگ ڈھنگ ہی کچھ نرالے ہیں بارہ تیرہ برس کی بچیوں کی طرف سے خودکشی کرنے کے واقعات پرہمارے سماج کی ذی عزت شخصیتوں کو غو ر وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ سماج کس سمت جارہا ہے ۔ایسی کیا باتیں ہوئی ہونگی جن کی وجہ سے نابالغ لڑکیوں جن کو ابھی تک زندگی کے نشیب و فراز کا کچھ اتہ پتہ نہیں کواپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنا پڑا۔ عام طور پر یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ مالی مشکلات کی وجہ سے اس طرح کے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔موبایل کے غلط اور بیجا استعمال کی وجہ سے بھی ہماری نوجوان نسل تباہ ہونے لگی ہے ۔اس میں ہمارے ایمہ مساجد اور امام و خطیب اپنا رول ادا کرسکتے ہین ۔مساجد خانقاہوں اور دوسرے دینی مقامات پر لوگوں کو بخوبی موبایل کے منفی اور مثبت پہلوﺅں سے آگاہ کرسکتے ہیں ۔موبایل فون کا جہاں تک تعلق ہے تو اسے ایک بہترین ایجاد قرار دیا جاسکتا ہے لیکن جب اس کا غلط اور بے جا استعمال ہوگا تو ہمارے معاشرے کو تباہی اور بربادی کی طرف جانے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے ۔سماج میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوششوں کو ترک کرنے سے ہم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں ۔ہر معاملے میں حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر ہم دامن چھڑانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن ضمیر انسان کو ٹوکتا رہتا ہے اور کہتا ہے کہ زندہ رہنا ہے تو انسانوں کی طرح رہنا سیکھو جانوروں کی طرح نہیں ۔